Sunday, February 15, 2009

ضیاجالندھری

ضیاجالندھری کی شاعری میں وقت اور زندگی کا تناظُر

محمد حمید شاہد


کہتے ہیں دلی میں ایک تقریب کے بعد اپیندر ناتھ اشک نے اپنی نشست سے اٹھ کرکرسی کی پشت پر ہاتھ جمائے اور سب کو مخاطب کرکے کہا: دوستو میں آپ کو اس وقت کویتا سنا سکتا ہوں اور لطیفہ بھی ۔ کہو کیا سناﺅں؟ ۔ راجندر سنگھ بیدی نے سنا ، قہقہہ لگایا، کہا : بھئی تم کویتا سناﺅ ، خود بخود لطیفہ بن جائے گئی ۔ عین ایسے زمانے میں کہ جب شاعری حسیاتی اور معنیاتی سطح پر لطیف ہونے کی بجائے اپنے مضمون میں مضحک ہو کر لطیفہ ہو جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی‘ کبھی پھلجھڑی ہوتی ہے اور کبھی بجھارت، ضیا جالندھری جیسے گہرے شاعر پر بات کرنا بہت اہم ہوگیا ہے ۔ضیاءجالندھری کی تخلیقی شخصیت کو سمجھنے کے دورانئے میں میرا دھیان بار بار اس کی غزل کے کچھ اشعار کی طرف جاتا رہا ہے ۔ یہ جانتے بوجھتے کہ غزل کبھی ضیا کی تخلیقی ترجیح نہیں رہی ۔ مجھے یوں لگا ہے کہ اس نے کئی ایسے شعر کہہ رکھے ہیں جو اس کے تخلیقی بھید پر کھلنے والا دروازہ ہو سکتے ہیں ۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس کی ایک ہی غزل کے دو اشعار:میں ذرہ ہوں پہ خیال و نظر میں لامحدود تو بے کنار، ترا عکس ِ بے کراں میں ہوں =٭=عدم میں رکھ مجھے یا حیطہ ´ وجود میں رکھ یہ”ہے “”نہیں“ کی کشاکش نہ ہو جہاں میں ہوںتویوں ہے کہ جہاں ضیا جالندھری ہے وہاں وقت ایک ڈھنگ سے اور ایک ڈھب پر نہیں چلتا ۔ مجھے موقع ملا ہے کہ ضیا کو توجہ سے اور یکسو ہو کر پڑھوں۔ سچ یہ ہے کہ اسے توجہ کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے نہ اس کیفیت سے لطف اٹھایا جاسکتا جس میں وقت کی کئی سطوح اپنی چھب دکھا کر معدوم ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ یہ معدوم ہونا تو میں نے ایک قاری کے نقطہ نظر سے لکھا ہے جب کہ ضیا کے ہاں آنے اورآکر چلے جانے والے لمحات کی اس دھج میں بھی ایک عجب طرح کی نیازمندی ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ ضیاایسے شاعروں میں سے نہیں ہے جو جا چکے لمحوں کو دفنا کر ہاتھ کی مٹی جھاڑ دیا کرتے ہیں۔ یہاں تو سب کچھ حاضر باش ہے ‘ جو ہے وہ تو ہے ہی اور جو نہیں ہے وہ بھی موجود اور دسترس میں ہے :تخیل میں ہر طلب ہے تحصیلجو بات کہیں نہیں‘ یہاں ہے ضیا کے تخلیقی مزاج کو سمجھنے کے لیے ایک اور غزل کا شعر درج کرنا چاہوں گا جس نے فوری طور پر میرا دھیان کھینچ لیا ہے : یہ زیست ہے یا خواب کہ ہے اور نہیں ہے اک عکس سرِآب کہ ہے اور نہیں ہےضیا کی غزل میں ہونے اور نہ ہونے کے اس قضیے کو اگر خواب اور حقیقت کی صورت دیکھا جا سکتا ہے تو اس کی نظم میں اس کی کئی اور صورتیں بھی بنتی ہیں ۔ ایسی صورتیں جنہیں وجودی سطح پر بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کا سبب خود آزاد نظم کا مزاج ہو جو اوپر کی پرت پر اتنی تیز دھار ہو جاتی ہے کہ وجود کو چھیلتی اور چھیدتی چلی جاتی ہے ۔ دیکھا جائے تو وجودیت کا فلسفہ ایک لحاظ سے غیریت اور بیگانگی کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ یہ وہ بے گانگی ہے جوعالمی جنگوں کے بعد انسانی اقدار کی پسپائی کے نتیجے میں اس کا مقدر بنی ۔ بعد میں انسان اپنی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اپنی ترکیب اور اپنی عقل پر انحصار کرکے ٹھوکر پرٹھوکریں کھانے لگا ۔ جب سارے معاملات میں خام عقل دخیل ہو گئی تو دیوار کے اس طرف کچھ نہ رہا۔ سارے لباس تارتار کر دیے گئے اور پھر بھی حقیقت ہاتھ نہ آئی تو آدمی بوکھلا گیا۔ اسے یہ شکست قبول نہیں تھی ۔ انسانی وجود کی ناگہانیت اور وحشت باولے کتے کی طرح آدمی پر چڑھ دوڑی تھی۔ وہاں جو آدمی جھیل رہا تھا ۔ وہی اس کی شاعری کے بھیتر میں بھی سما گیا۔ جب جدید نظم ادھر سے ادھر آئی تو ہمارے نظم نگاروں کو بھی ان موضوعات میں کشش محسوس ہونے لگی تھی۔ تاہم انہیں بہت جلد احساس ہوگیا کہ دیوار کے اس طرف تو ایک پوری کائنات موجود ہے جس جانب تمنا کادوسرا قدم بڑھایا جاسکتا ہے ۔ ہمارے ہاں چوں کہ آدمی یوں اکیلا کبھی نہیں ہواتھا ۔ یہاں تہذیبی حوالوں اورانسانی اقدارنے انسان کے وجدان اور ایقان کو سہارا دے رکھا تھا لہذاشکست نہ ماننے اور اپنے باطنی وجود کے مکمل انہدام کو قبول نہ کرنے کے لیے مزاحمت کاانوکھا سلسلہ چل نکلا جو صارفیت کے اس عہدرواں تک چلا آتا ہے ۔ اس مزاحمت کو ضیا کے ہاں”سر شام “ سے ”دم صبح “ تک بطور نمایاں عنصر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔تاہم جاننا ہوگا کہ ضیا کے ہاں مزاحمت کی یہ لہر پرشور نہیں ہے اس نے جابجا نئی زندگی کی یخ بستگی کو دکھا کر‘اس کے مقابلے میں فرد سے فرد کے سماجی سطح پررشتوں سے جڑی ہوئی قدیم زندگی کی شعلگی کو رکھا ہے اور اپنے قاری کے اندر ایک میزان قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس باب میں مجھے آپ کی توجہ ضیا کی پہلی کتاب ”سرشام “ کی ایک نظم ”ابوالہول “ کی طرف چاہئیے ۔ یہ نظم اپنی تیکنیک ‘مواد‘احساس حتی کہ موضوع کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے نہ صرف ن م راشد اور میرا جی کے تخلیقی ضابطوں سے الگ دھج اختیار کرتی ہے ان ترقی پسندوں جیسا چلن بھی نہیںرکھتی جو ایسی نظموں کا عنوان ”انسان عظیم ہے خدایا“ رکھ کر اور اکہری بات کہہ کرآگے چل دیا کرتے ہیں۔ کیا یہ بات اہم اور قابل توجہ نہیں ہے کہ ضیا کی نظم میں تخاطب بھی جمالیاتی لہروں میںجذب ہوگیا ہے۔ تو یوں ہے صاحب کہ یہ نظم انسان کی عظمت کی تلاش سے جڑ نے کے دورانیے میں اس کے وجودی کرب کو ‘کہ جو اپنی قامت اور جسامت میں ابوالہول سے کسی صورت کم نہیں ہے ‘ سے بھی پیوست رہتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ ابوالہول عجائب عالم میں شمار ہوتا ہے اورہم تو یہ بھی گمان کیے بیٹھے ہیں کہ اس کائنات میں آدمی کا وجود بھی ابوالہول کی سی عظمت کی لیے ہوئے ہے۔ ضیا کی نظم کا قضیہ انسان کی عظمت نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جس میں حرکت اور حرارت کو ہونا چاہیئے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ نظم کے پہلے حصے میں ابوالہول کو خواب گراں سے جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔جہانِ ریگ کے خوابِ گراں سے آج تو جاگہزاروں قافلے آتے رہے، گزرتے رہےتڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگجو تیرے دیدہ ¿ سنگیں سے درد بن کے بہےیہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہےیوں ہی سلگتی رہے ترے دل میں زیست کی آگانسانی تاریخ کا جو حوالہ اس نظم میںضیا کے سامنے ہے اس میں انسان نے بزعم خود اپنی عظمت کو اپنے وجود سے جوڑ رکھا ہے ۔ آدمی جس جھونک میں اپنی اصل سے الگ ہو گیا ہے اس میں اس نشہ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کئی سانحات انسانی وجودپر گزرے ہیں مگر یہ سنگی ابوالہول ایک خواب مسلسل کا اسیر ہے اور نہیں جانتا کہ وہ زندگی تو موت ہوا کرتی ہے جس میں لگن اور لاگ کا چلن نہ ہو۔ انسانی رشتوں کا یہ روپ خالص مشرق کی دین اور اپنی روایت سے جڑت کی عطا ہے ۔ جس گوں کے آدمی کا تصور ضیا کی نظموں سے متشکل ہوتا ہے اس میں یہ عناصر انسانی وجود کا لازمی جزو ہو گئے ہےں۔ تو یوں ہے کہ ضیا نے زندگی کواس سرمائے کی طرح نہیں دیکھا ہے جسے جمع کرتے کرتے اتنا بڑا ڈھیر بنا لیا جائے کہ دیکھنے میں وہ ابولہول ہو جائے ۔ سرمائے اور اشیا کا بارودی ڈھیر‘ جس کی تہہ میں نئی زندگی کو چمک عطا کرنے والے کارکنوں اور سرمائے کو نمو دیے چلے جانے والے صارفین کی خواہشات کی لاشیں دفن ہوں ۔ کون نہیں جانتا کہ وہ ابوالہول جس کی عظمت دیکھنے والوں کے سینوں پر ہیبت بن کر چڑھ دوڑتی ہے کتنی انسانی لاشوں کے ڈھیر پر تعمیر ہوا تھا۔ ضیا کو اس ہیبت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ اس کی نظر تو اس تیرہ شبی پر گڑھی ہوئی ہے جسے بجلیوں کے ناز سہنے چاہیئیں اور اس کا معاملہ تو اس دل سے ہے جس میں زیست کی آگ سلگتی رہتی ہے ۔ ضیا کی اس نظم کے دوسرے حصے میں عافیت والی زندگی کو اس زندگی کے مقابل رکھ کر دیکھا گیا ہے ‘ جس کی گھات میں فنا ہے ۔ دل کا راز کہہ دینے کی تاہنگ میں مبتلا آدمی جن خطرات سے دوچار ہے ابوالہول کے دل سنگین کا وہ چوں کہ قضیہ نہیں بنتا لہذا خود اپنی آگ میں جل اٹھنا بھی یہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ۔زندگی کے کئی روپ ضیا کا موضوع بنتے رہے ہیں۔ عظمت‘ ہمیشگی ‘تحرک‘ لاگ ‘ لگاﺅ‘ بے ثباتی غرض جہاں جہاں سے اس نے زندگی کو دیکھا ہے اس کی بالکل الگ سی تصویر یںبنا کر رکھ دی ہےں ۔ نظم ”بے حسی “ میں زندگی کی لاش ایک سرد تودے کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو ”بہاگ “ میں شور ‘ہنسی‘ باتیں‘ گھومتے پہیئے‘ ہلتے ہاتھ اور پھر خدا حافظ کہتے ہونٹوں کے دورانیئے میں زندگی قضا ہوجاتی ہے ۔ خالی سونی راہیں ‘ سرد ہوا ‘ پڑتی پھوا ر اور خشک ہوتے پتے‘انتظار سے صورت پاتا شدید احساس ِتنہائی جو آج کے آدمی کا مقدر بنا دیا گیا ہے ضیا کی نظموں کا خاص موضوع ہے۔انسانی زندگی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے والی یہ تنہائی اس کی اب تک کی آنے والی آخری کتاب ”دم صبح “ تک پھیلی ہوئی ہے ۔ تاہم یہاںتک پہنچتے پہنچتے ضیا اپنی نظموں میں باقاعدہ اپنا سینہ کھول کر دکھانے اور یہ بتانے بھی لگاہے کہ آ دمی کو ایک ایسی روشنی چاہیے جو تاریکی کے اس خلا کو پاٹ دے ۔ ضیا کی نظر میں یہ روشنی انسان کے وجود کے اندر سے پھوٹ سکتی ہے ۔ بس اسے کرنا یہ ہوگا کہ فرد کو فرد کے قریب لانا ہوگا۔....اس قدر یاد ہے چاہا تھا کہ تجھ تک پہنچوںمرے رستے میں مگردانش شہرِ ہوس حائل تھیدانش شہر ہوستہ بہ تہ سیل کی مانند بڑھی آتی تھیدل گھٹا جاتا تھاکون جانے تو کہاں ہے لیکن میں یہ سینے کا خلا ساتھ لیے پھرتا ہوں کو بہ کو ‘ شہر بہ شہرپوچھتا پھرتا ہوں کیا تم نے کہیںروشنی دیکھی ہے اور اس کا خلا دیکھا ہے۔(نظم :خلا)صاحب مانتا ہوں کہ میں ضیا جالندھری کی نظم کی طرف براہ راست متوجہ نہیں ہوا تھا ۔ یوں نہیں تھا کہ میںنے اس نظمیں دیکھی تک نہ تھا ۔ جرائد میں یہاں وہاں چھپنے والی نظمیں پڑھتا رہا تھا مگر یکسو ہو کر اور ذرا جم کر پڑھنے کی جانب حمید نسیم کی کتاب ”پانچ جدید شاعر“ نے متوجہ کیا۔ پہلے میں ضیا کو ایسا شاعر سمجھتا رہا جو اپنی نظموں میں زندگی کی سلگتی بجھتی تصویریں دکھا کر الگ ہو جاتااوراس سلگنے سے اٹھتے دھوئیں کا ایک احساس چھوڑ جایا کرتاتھا۔ میں اب جومیں اس کی شاعری کے حصار میں ہوں تو یہ بھی تسلیم کرنے لگا ہوں کہ ضیا ان شاعروں میں سے نہیں ہے جو ہر مزاج کے آدمی کی راہ روک کر کھڑے ہو جایاکرتے ہیں۔ اس کی نظم تو اپنی تفہیم کے لیے آدمی کی ایک الگ تہذیب مانگتی ہے ۔ حمید نسیم نے بجا طور پر ضیا کو ان شاعروں میں شمار کیا تھا جن کے کلام کا رنگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور جن کی شاعری نگاہوں کو خیرہ کرنے کے بجائے دل میں احساس و اگہی کی قندیل روشن کرتی ہے ۔ بقول حمید نسیم اس قندیل کی لو نرم و خوشتاب بھی ہے اور دائمی بھی۔تو یوں ہے کہ اب جب کہ میں ”سرشام“ سے ”دم صبح“ تک کی نظمیں،غزلیںاور گیت پڑھ چکا ہوں تو یہ بھی جان چکا ہوں کہ ضیا اپنے عہد کے شاعروں سے بالکل الگ اور نمایاں ہے ‘وہ یوں کہ اس نے زندگی کو ایک تسلسل میںدیکھا ہے ٹکڑوں میں نہیں ۔ جس طرح فکریات کا شعبہ اقبال کو مرغوب تھا بظاہریہ شعبہ ضیا کا نہیں بنتا تاہم پورے اخلاص سے اس کے کلام کا ایک تسلسل میں مطالعہ کرنے والا اس کے اس فکری دھارے سے خود کو الگ نہیں رکھ پاتا جو اس کی نظموں میں احساس کے دھیمے سروں کی صورت بہہ رہاہوتا ہے ۔ ضیا کی فکریات کا سلسلہ ان امیدوں سے جڑا ہوا ہے جو اسے زندگی سے رہیں۔یہ امیدیں گھمبیر نہیں سادہ ہیں مگر لطف یہ ہے کہ اس سادگی میں ایک گھماﺅ اور گھمبیرتا ہے اور طرفگی یہ ہے ان کا برا ٓنا سہل نہیں ہے :کتنا پرکار ہو گیا ہوں ‘کہ تھاواسطہ تیری سادگی سے مجھے اور ....حیات خود ہے دہان ِ نہنگ لا یعنی جو ہے عدم کا مسافر ہے ‘میں چلا کہ میں ہوں اپنے ہونے اور نہ ہونے کو وقت کے جس پیمانے سے ضیا نے ماپا ہے اس میں وقت سے جڑی زندگی کا تصور جامد اور ٹھٹھرا ہوا نہیں بلکہ حرکی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے ہاں بننے والے امیجز متحجر نہیں ہوتے اوران کا معنوی تپاک قاری تک پہنچتا رہتا ہے ۔ وقت اور زندگی کے اس حرکی تصور میں دن اور رات میں بٹے وقت کو مکان اور مکین سے جوڑ کر بھی دیکھا گیا ہے اور اس سے جدا کرکے بھی ۔ تاہم جہاں جہاں زندگی کی بے معنویت ضیا کھلنے لگتی ہے وہاں وہاں وہ وقت کو ایک جبر کی صورت عین انسانی چھاتی کے اوپر نیزے کی انی صورت ٹھہرالیا کرتا ہے۔ ”سر شام“ سے شاعری کو آغاز دینے والے نے وقت کو وہاں سے گرفت میں لینا چاہا ہے جہاں وہ اپنا ایک مرحلہ مکمل کرکے پڑاﺅ ڈالتا ہے۔ دم صبح تک آتے آتے اس کا مکالمہ زندگی کے افق پر تنی طویل اور مسلسل شب سے رہا ہے ۔ تاہم آپ دیکھیں گے کہ ضیا نے بالکل ابتداءہی میں اپنی ایک نظم میں دن بھر کی زندگی کو ”صبح سے شام تک“ کی دھجی میں باندھ کر دکھا دیاتھا ۔ اس نظم میں پہلے صبح کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:مست آنکھوں سے برستا ہے صبوحی کا خمارپھول سے جسم پہ ہے شبنمی زرتار لباس کروٹیں لیتا ہے دل میں اسے چھونے کا خیال آنکھیں ملتے ہوئے جاگ اٹھتے ہیں لاکھوں احساسیہ حسینہ مجھے اکساتی ہوئی آتی ہے ........ ”صبح سے شام تک“زندگی سے محبوبہ کے جمال کی صورت جڑے ہوئے وقت کے اس طلوع میں کمال کی نرمی اوربے پناہ جاذبیت ہے ۔ ضیا کا انسان وقت کے اسی روپ کو عزیز رکھنا چاہتا ہے کہ اس کی طلب میں رہ کر اسے لمحوں کی پازیبوں کے نغمے گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ۔ اسی کے جسم کی لوچ میں لطف کی سیماب موجیں ہیں اور وقت کی یہی تو وہ حسینہ ہے جس کی نقرئی انگلیاں آفاق پہ لہراتی ہیں ۔ تاہم مشرق سے اٹھا یہ وقت جونہی مغرب کی طرف جھک جاتا ہے تو ضیا کے مقابل زندگی کا ایک سلگتا ہوا منظر کھل جاتا ہے : سر جھکائے ہوئے ‘منہ پھیر کے ‘خاموشی سے دور مغرب کے دھندلکوں میں چلی جاتی ہے میرے دل میںہیں سلگتی ہوئی یادیں اس کی انہی یادوں سے میری روح جلی جاتی ہےکتنی تاریکیاں چپ چاپ سرک آئی ہیں .... ”صبح سے شام تک“ یہ سوال ضیا کے لیے بہت اہم ہوگیا ہے کہ آخر انسان وقت کے اس جبر سے کیوں بندھا ہوا ہے ۔ اور جب رات ہی کو آدمی کا مقدر ہونا ہے تو اس پر زندگی کی نرمگیں صبح کا منظر کیوں کھولا گیا ہے ۔ اس پر روشن دوپہریں کیوں مہربان رہتی ہیں اس پر افق سے لالی کیوں برستی ہے اور آخر اس پر رات تن کرکیوں مسلسل ہوجاتی ہے۔ ضیا نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں اس پر بہت سوچا ہے اور اپنے تئیں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ:بساطِ ساکت کی وسعتوں میں زمین ‘اہل زمین‘افلاک ‘اہل افلاکاپنی اپنی معینہ ساعتوں میں ایسے گزر رہے ہیں کہ جیسے آنکھوں سے خواب گزریں”ہم“وقت کے تناظرمیں ضیا کا زندگی سے یہ مکالمہ اتنا عظیم اور اتنا پرلطف ہوگیا ہے کہ اس میں چھوٹے بڑے غم اور خوشیاں جھوٹی ‘ بے معنی اور ناپائیدار دکھنے لگی ہیں ۔ وہ جو میں نے اوپر کہہ دیا تھا کہ جن معنوں میں ہم فکریات سے وابستہ لوگوں کا تصور کیا کرتے ہیں ان معنوں میں ضیا فکریات کاآدمی نہیں ہے اور یہاں اس پر یہ اضافہ کرنے کاجواز نکل آیا ہے کہ فکر کو احساس کی سطح پربرتنا بسا اوقات زیاہ خالص اور زیادہ بامعنی ہوجایا کرتا ہے۔ اس خالص پن اور معنویت کو ضیا جیسا شاعر ہی گرفت میں لے سکتا تھا جس کے داخلی مسطر پر کاتب وقت جو کچھ لکھتا ہے اس کی معنویت کا بار امانت اس کے دل پرمنتقل ہوتا رہتا ہے۔ ضیا چوں کہ معروف معنوں میں مفکر نہیں ہے لہذا اس کے ہاں تبدیلی کی خواہش کی شدت کٹاری کی تیز دھار بننے کی بجائے روایت ‘جدت اور واردات کے بہم ہونے سے گہرے احساس کا روپ دھار گئی ہے میں نے دیکھا ہے کہ احساس کے ساتھ اس معاملے کے دوران بھی شاعر کا لاشعور بہت چوکس رہتا ہے۔ بظاہر منظر سامنے کا ہوتا ہے جس میں مختلف علامتیں سیال ہو کر بہ رہی ہوتی ہیں مگر لاشعور اسے انسان کی تہذیبی اور فکری تاریخ سے جوڑتا رہتا ہے۔ ”بے حسی“ ”بھول“ ”آخرکار“ ”غم گسار“” ویرانے“، ”اجالا“، ”بجھی ہوئی آگ“،” دکھاوا“، ”یہ بہار“،” زمستان کی شام“”ساملی“ ”ٹایپسٹ“ غرض کوئی نظم اٹھائیں بظاہر منظر سامنے کا ہے جس میں کہیں تو پتے پتے پر موتی مچل رہے ہیں اور کہیں ایسی سرخوشی ہے جو شگوفوں سے سنبھالے نہیں سنبھلتی تاہم سرشاری ‘ سرمستی اور سرفرازی کے ان مناظر پر محیط ہو جانے والے غم کا تسلسل اور افراط میں ہر دم کچرا بنتی ہوئی زندگی کو کسی نہ کسی بسنتی کی بہر حال ضرورت رہتی ہے ۔ اور اب یوں ہے جیسے ہمارے دلوں میں بھی کچرے کے انبار ہیں ایسے انبار کوئی بھی جن کو اٹھاتا نہیں ۔”کچرا“ایک طرف اگرزندگی کرنے کی للک سے کٹ کر اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جستجو میںمر چکے ابوالہول جیسے سنگی آدمی کو وقت جس طرح بھرا بھرا کیے جا رہااس کی تصویریں دکھائی گئی ہیں تو دوسری طرف اس کی شاعری کا مرکزی موضوع وہ تاہنگ ہے جس میں بہر حال کسی نہ کسی بسنتی کو آجانا ہوتا ہے ۔ جو آئے اور ہمارے اندر سے اس بظاہر ہیبت اور عظمت والی مگر فی الاصل مردہ ہو چکی زندگی کواٹھاکرلے جائے جو کچرے کا ڈھیر بن چکی ہے ۔ ٭٭٭

No comments:

Post a Comment