Sunday, February 15, 2009

حسن عابدی

جو حرف لکھے دور سے روشن نظر آئے
محمد حمید شاہد
مجھے اعتراف کر لینے دیجئے کہ میں حسن عابدی کی طرف اس کی نظم ” کوئی چیز بے کار نہیں “ سے پہلے پوری طرح متوجہ نہ ہو پا یا تھا۔ میں نے یہ نظم آئندہ کراچی کی ۰۰۰۲ءمیں چھپنے والی ایک اشاعت میں پڑھی تھی ۔ بظاہر نظم ایک کباڑی کے دن بھر کے معمولات کے گرد گھومتی تھی مگر بیچ بیچ میں کوسوں کے اندر قدرے غیر متعلق بات کی طرف اشارہ کرکے اسے قومی سطح پر مجرمانہ بے عملی سے جوڑ دیا گیا تھا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی تھی ‘ اس میں کاٹھ کباڑ سے جو امیجز بنائے گئے تھے وہ حیرت انگیز طور پر اتنے شفاف ہو گئے تھے کہ ان میں سے معنی کے ایک سے زائد دھارے پھوٹ بہے تھے ۔ اور جب میں نظم کے آخر میں پہنچا تھا‘ وہاں جہاں اس کباڑی کے گول مٹول بچے کو تختے والی اس ریڑھی پر بیٹھا دکھایا گیا تھا جس پر دن بھر گلی گلی گھوم کر اکٹھی کی جانے والی ناکارہ چیزیں دھری ہوئی تھیں تو میرا دوران خون بڑھ گیا تھا ۔ نظم یہاں پر رکی نہیں تھی کہ آگے چل کر کاٹھ کباڑ کو ایک بڑے کباڑی نے خریدنا تھا .... کاٹھ کباڑ کو ‘ قومی ردی کو اور چھوٹے کباڑی کے گول مٹول بچے کو بھی‘ کہ اسی سے مال بنایا اور کمایا جانا تھا ۔ یہ نظم میرے اندر دھرنا مار کر بیٹھ گئی۔ گہرے درد کی طرح ....‘ نہیں شاید ایک طیش کی طرح جو آپ کے دوران خون کو معمول پر نہیں آنے دیتا ‘ اسی رات میں نے خواب میں ایک کباڑی کو دیکھا تھا جو دروازوں پر دستک دے دے کر صدائیں لگاتا پھرتا تھا :”ٹوٹا پھوٹا مال نکالوبی بی خالی ہاتھ نہ ٹالولوہا لکڑی ‘خالی ڈبے ‘ ناکارہ فرنیچرکرنا کیا ہے گھر میں رکھ کر....“میں نے نظر بھر کر اس کی تختے والی گاڑی کو دیکھا تھا ٹوٹی پھوٹی میز اور کرسی کے ساتھ بنیادی دفعات سے خالی آئین ‘مالی منصوبے ‘ سرکاری اعلانات اور پتہ نہیں کیا کچھ ردی کی صورت بکھرا پڑا تھا ۔ اسی کاٹھ کباڑ اور ردی کے پاس ہی ایک معصوم بچہ بھی بیٹھا ہوا تھا جس کے چہرے کی معصومیت کواس ناکارہ اسباب سے اٹھنے والی دھول نے دھندلا دیا تھا۔یوں کسی فن پارے کا اعصاب پر سوار ہو جانا میرے لیے بہت غیر معمولی تھا ۔ پھر یوں ہوا کہ اس غیر معمولی فن کار کی نظمیں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے لگااور لطف یہ ہے کہ ہر بار کوئی نہ کوئی پہلو مجھے دلکش دکھائی دے جاتا تھا۔ ان نظموں سے میں نے جس حسن عابدی کے خال و خد بنائے وہ اس بزرگ ترقی پسند صحافی کے طور پر معروف حسن عابدی سے قطعا مختلف تھے جس کا ذکر گاہے گاہے میرے سننے میں آتا رہا تھا۔ ان نظموں میں جدید تر حسیات سے پوری تخلیقی سچائی کے ساتھ وابستہ ایسے شخص کا ہیولا بنتا تھا جس نے گذشتہ ربع صدی کے بدلے ہوئے تخلیقی لحن کو شعار کیا تھااور یہی میری چوک تھی ۔ جدید نظم پر مضمون لکھتے ہوئے اسی چوک نے مجھے ان بھائی لوگوں کی طرح منہ کے بل گرایا جو تخلیق کو مصنف سے بالکل الگ کرکے سمجھنے کے جتن کرتے ہیں اور آپ جانتے ہی ہیں کہ مصنف کو مردہ سمجھنے والوں کی تنقیدی تھیوریوں کے لاشے تھوڑے ہی عرصے میںتعفن چھوڑنے لگے ہیں۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ‘ مجھے تو یہ بتانا ہے کوئی تین سال پہلے جب میں نے ایک مضمون میں نئی نظم کے کچھ اہم نام نشان زد کئے تھے تو حسن عابدی کو اسی تناظر میںاس نئی نسل میں شمار کر لیا تھا جس نے گزشتہ ربع صدی میں شناخت پائی تھی۔اس مضمون کے چھپنے پر آصف فرخی نے بجا طور پر میری گرفت کی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ چندایسے نظم نگاروں کا میرے مضمون میں ذکر نہ آنے پر برہمی کا اظہار بھی کردیا تھا‘ جو مجھے قطعا متاثر نہ کر پائے تھے ۔ لہذا آصف فرخی کے خط کی جذباتی عبارت بہت جلد ذہن سے محو ہو گئی حتی کہ ۳۰۰۲ کی وہ شام آگئی جب میرے لیے کراچی میں کچھ احباب جمع ہوئے جن میں حسن عابدی بھی تھا ۔ بوٹا قد‘ اکہرا جسم ‘ سفید بڑھے ہوئے بال جنہیں عدم دلچسپی سے کنگھی کیا گیا تھا ‘ موٹے فریم والی عینک ‘ وہ ملنے کے لیے اٹھ کھڑاہوا تھا مگر یوں کہ نگاہ پوری طرح اٹھی ہوئی نہیں تھی اس کے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ تھی جو مزاج کی سنجیدگی نے دبا رکھی تھی۔ تعارف ہو چکا تو میں کھسیانا ہو رہا تھا مجھے آصف فرخی والی گرفت یاد آنے لگی ۔ واقعی مجھ سے بہت خطا ہوئی تھی اور جب تک میں نے حسن عابدی سے اپنی خطا کی معافی نہیں مانگ لی میں بات آگے بڑھانے کے قابل نہیں ہوا.... مگر یوں تھا کہ میرے معذرت چاہنے پر وہ اور بھی زمین کے قریب ہو گیا تھا اس پیڑ کی ڈالیوں کی طرح جو رس بھرے پھلوں سے لد کر جھک جاتی ہیں ۔باقی کی ملاقاتیں بھی گنی چنی ہیں مگر اس عرصے کا فیضان یہ ہے کہ حسن عابدی نے مجھے اس وقت تک شائع ہو چکے اپنے دونوں شعری مجموعے عطا کرکے موقع فراہم کر دیا تھا کہ میں اس کی شاعری دل جمعی سے پڑھ سکوں۔ اس کا تیسرا مجموعہ کچھ عرصہ پہلے آصف فرخی لیتے آیا ۔جن کے ہاں لکھنا مشغلہ نہیں ہوتا زندگی اور موت جیسا مسئلہ ہو جاتا ہے وہ لاکھ فاصلے پر ہوں قریب آجاتے ہیں تو یوں ہوا کہ ہم بہت قریب ہوگئے تھے۔اب میں اس حسن عابدی کو جان گیا تھا جس کی ساری زندگی مشقت سے عبارت تھی مگر جس کا دل انسان کی محبت میں کناروں تک چھلک رہا تھا جو محبت کو دل کی دین‘ اور محبت ہی کوہرذی نفس پر فرض اور آدمی کا آدمی پر قرض سمجھتا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اس سانحے پررنجیدہ بھی تھا کہ شہر کی رسمیں جدا ہو گئی ہیں:” یہاں کے آب و خاک و باد میں انکار کی خو ہےشجر آغوش وا کرتے ہیں اور سائے نہیں ملتےشناسائی کی خوشبو پر دریچے بند ہوتے ہیںدعائیں در بدر پھرتی ہیں ماں جائے نہیں ملتے....“محبت/حسن عابدیعین ایسے عالم میں کہ جب بھونچال کی تباہ کاریوں کے بعد بچوں کی چیخوں کے سرخ پھول فضا کی چادر پر ہر کہیں نظر آتے ہیں مجھے اِس نامہربان منظرنامے کے طلسم سے نکلنے کے لیے وہ وظیفہ یاد آتا ہے جو حسن عابدی نے اپنی نظم ”آنسو“ میں بتایا تھا:”بچوں کی آوازیںآوازوں کے پھولاور پھولوں کے ہارکچھ بھی پاس نہ آئےتب یہ سوچوروح کی گرد آلود قبا میں‘چاک بہت ہیںکب سے دھوئے نہیں تھےکب سے روئے نہیں تھےتنہا بیٹھو ‘بیٹھ کے رو لودھول آنکھوں سے دھل جائے گیدنیا نئی نظر آئے گی“آنسو/حسن عابدیجس روز حسن عابدی نے اپنی پہلی دو کتابیں ”نوشت نے“ اور جریدہ“ دی تھی تو یوں نہیں تھا کہ کتابیں لاکر چھاتی پھلا ئی اور دھڑ سے مجھے تھما دی تھی ۔ بلکہ یوں تھا کہ ہم مبین مرزا کے ہاں طویل نشست کے بعد بہت دیر ساتھ ساتھ رہے ‘ وہ بولتا کم اور سنتا زیادہ تھا۔ اس روز تو وہ بہت کم بول رہا تھا۔ اتنا کم کہ مجھے خدشہ ہونے لگا‘ کوئی بات ضرور ہے جو اسے کہنا ہے ۔ اس خدشے نے مجھے بھی چپ لگادی تھی۔ مجھے پوری طرح اپنی جانب متوجہ پاکر حسن عابدی نے اپنی لپیٹی ہوئی کتابیں میرے سامنے کیں اور کہا کہ قصور اُس کا اپنا تھا کہ ُاس کی کتابیں بہت کم لوگوں تک پہنچ پائی تھیں۔ میں نے اُن کتابوں کو تھام لیا اور پھر یوں ہوا کہ مجھے حسن عابدی کی محبت نے تھام لیا ‘ اُس کے خلوص سے بھرے ہوئے لفظوں نے ‘ اُس کے لہجے کے ٹھہراﺅ نے اور اُس گہرے احساس نے جو اُس کی شاعری کا خاص وصف ہو گیا تھا۔۵۹۹۱ءتک شاعر حسن عابدی ‘ صحافی حسن عابدی کے نرغے میں تھا۔ تاہم ’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ‘ والا کرشمہ ہوا اورجنوری ۵۹۹۱ میں اس کی پہلا شعری مجموعہ ”نوشت نے “شائع ہوگیا۔ اس مجموعے کے آغاز میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ :” میں نے صحافت کی‘ کالم نگاری کی‘ اخبار میں نوکری کی.... بے روزگاری کاٹی ....مشقت سے منہ نہ موڑا‘ دل شکستہ تو ہوا مایوس نہیں ہوا ۔اب سوچتا ہوں تو نادم ہوتا ہوں کہ میں نے شاعری کو اپنا اسلوب زیست کیوں نہ بنایا“گزارش‘نوشت نے/حسن عابدییہ ندامت ایسی تھی کہ اس نے زندگی کا اسلوب بدل لیا ۔ اب صحافت اس کی زندگی میں اس مقام پر آگئی تھی جہاں اسے ہونا چاہیے تھا ۔ یہی سبب ہے ۸۹۹۱ میں اس کا دوسرا مجموعہ ”جریدہ“ شائع ہو گیا جب کہ کچھ ہی عرصہ پہلے اس کا تیسرا مجموعہ ”فرار ہونا حروف کا بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔ لیکن میں بات کر رہا تھا اس زمانے کی جب وہ صرف صحافی ہو کر رہ گیا تھا‘ ایسا صحافی جو ترقی پسندتحریک کا انڈر گراﺅنڈ ورکر تھا اور انہیں کے تقاضوں کے عین مطابق شاعری کر لیا کرتا تھا ۔ تب وہ اس تحریک کا اتنا اہم ورکر تھا کہ ایک وقت کی حکومت نے اسے راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہونے والوں کی فہرست میں رکھا ۔ یہ گرفتار ہوا‘ سی کلاس کی صعوبتں برداشت کیں مگر اپنی روش ترک نہ کی حتی کہ وہ زمانہ آلگتا ہے جب ترقی پسندی دوا کے طور پر کان میں ڈالنے کو بھی باقی نہیں بچتی اور بچے کھچے اکثر انقلابی اتنے روشن خیال اور سیانے ہو گئے ہیں کہ اس روشن خیالی کی جھونک میں سب سے بڑے سامراج اور اس کے مقامی ہرکاروںکے مکروہ چہروں پر بوسے دیتے ہوئے انہیں ذرا بھی لاج نہیں آتی ۔ فیض کا وہ شعر یاد کیجئے جس میں ‘ پرورش لوح و قلم ‘کی بات کی گئی تھی اور بدلے ہوئے تناظر میں حسن عابدی کا ایک شعر بھی سن لیجئے :عابدی پرورش جاں کا خیال آتا ہےان دنوں پرورش لوح و قلم سے پہلے سو عین ایسے زمانے میں جب عالمی سرمایہ کاری سب کچھ بہائے چلی جاتی ہے ۔ نظریاتی وابستگیوں معزز وظیفہ بے وقت کا راگ بنا دیا گیا ہے ‘ ہم نے دیکھا کہ حسن عابدی سب سے الگ دھج سے کھڑا مسلسل سامراج کوللکارتا رہا ‘ بغیر کسی خوف کے ‘ پورے خلوص اور پورے تخلیقی رچاﺅ کے ساتھ:”ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گےعلی بابا کے سونے کے خریطے ‘ خیمہ و خرگاہ سارے لٹ چکے ہوں گےجہاں عشوہ طراز و حیلہ گر مرجینا رہتی تھیوہاں اک اور ہی دنیا کے نوسر باز بیٹھے ہیںیہاں مٹی میں جادو ہے‘ زمیں سونا اگلتی ہے ہوا میں تیل کی بو ہے ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گےتو پھر واپس نہ جاﺅ گے۔ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گے/حسن عابدیحسن عابدی کے مرنے کی خبر میرے لیے بہت اچانک تھی ۔ ایک صبح میں نے حسب معمول اپنا میل باکس کھولا تو اس خبر پر مشتمل کراچی سے آنے والی ای میل میرے سامنے آگئی تھی یوں کہ میں بہت دیر تک اسے پڑھ نہ پایا تھا ۔ اسی ای میل میں لکھا تھا کہ حسن عابدی کل تک ٹھیک ٹھاک تھے ۔ کسی تقریب میں شرکت کی اس کی رپورٹ ڈان کو بھیجی تھی ۔ میں نے جھٹ ڈان کا ویب ایڈیشن نکالا وہاں حسن عابدی کی بھیجی ہوئی رپورٹ موجود تھی ۔ مگر وہاں حسن عابدی نہیں تھا بس اس کے قلم کی مشقت تھیصحافت کی دنیا سے وابستہ رہتے ہوئے ‘ اس نے ۵۹۹۱ سے ۵۰۰۲ کے دورانئے میں اپنے آپ کو شاعری کے میدان میں یوں زندہ رکھا کہ اب وہ کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا ۔بہت پہلے اس نے کہا تھا:میں آبلہ پا دھوپ کے صحرا کا مسافر سائے کا بھی احسان اٹھا کر نہیں رکھا جو حرف لکھے دور سے روشن نظر آئے رستے میں چراغوں کو بجھا کر نہیں رکھا ٭٭٭

No comments:

Post a Comment