Sunday, February 15, 2009

فیض احمد فیض

فیض کی شاعری اور نئے تصادم

محمد حمید شاہد


یہ ان دنوں کا قصہ ہے کہ گذشتہ صدی اپنی آخری سانسوں پر تھی اور لوگ اسے، دی موسٹ وائیلنٹ سنچری، کے نام سے موسوم کرنے لگے تھے ۔ اور اب جب کہ اس صدی کے ابتدائی سال ہم پر بیت رہے ہیں کہنے والے صاف صاف کہنے لگے ہیں کہ صاحب یہ انسان اور انسانی اقدار کی سر بلندی کا نہیں ،یہ تو دہشت کا زمانہ ہے۔دہشت کے اس زمانی عرصے میں ہمارے یقین اور ایقان کو بے یقینی اور وسوسوں کی پھپھوندی لگ چکی ہے۔ ایسے اوندھا کر رکھ دینے والے زمانے میں یقین کی دولت سے مالا مال اور اپنے خون دل میں انگلیاں ڈبو کر شعر لکھنے والے فیض کو ہم یاد کرتے ہیں اور نئے حوالوں سے یاد کرتے ہیں تو دل امنگوں اور جذبوں سے کناروں تک بھر جاتا ہے۔ پہلے تو یہ بات کیا کم اہم ہو گی کہ عین اس عہد میں کہ جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نام پر گاربیج انفارمیشن سے آج کے انسانی ذہن کو لاد کر ناکارہ کیا جارہا ہے اورڈس انفارمیشن کے حیلے سے ظالم حق پر اور مظلوم دہشت گرد ثابت ہو رہا ہے، ہم ایک شاعر کو یاد کر رہے ہیں ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ الٹی گنگا بہانے کی کوشش لگتی ہے ۔ ایک ایسی کوشش جس کی مادے کی منڈی میں کوئی قیمت نہیں ہے ۔آج کل تو دہشت دہشت کھیلنے کا زمانہ چل رہا ہے کہ اس کی آڑ میں نئی نئی منڈیاں تلاش ہو رہی ہیں یوں دہشت منڈی کی چیز ہو کر بہت اہم ہو گئی ہے۔ لہذا دوسروں کے قومی وسائل اور توانائی کے سرچشموں پر دھونس دھاندلی اور طاقت سے قبضہ کرنا جائز ہوا۔ جہاں حملہ کرنا اور افواج بھیجنا بوجوہ موقوف کرنا پڑا ہے وہا ں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے دل خوش کن نعرے کی سنہری زنجیر آدمی کے گلے میں ڈالی جارہی ہے۔ سو صاحبو ، عجب زمانہ آ لگا ہے کہ جس میں اپنی تہذیبی اقدار کا سوال قدامت پسندی اور کسی مربوط فکر اور نظریے کی بات کرنا ٹیکناجی کی برکات کا انکار اور بے وقت کی راگنی ہو گیا ہے۔ ایسے میں فیض کو یاد کرنا اور اس کی اس شاعری کو یاد کرنا جو سامراج پر کاری ضرب لگاتی ہے، کسی کی بھی پروا کیے بغیر ، واقعی بڑے حوصلے کی بات ہے۔ حوصلے کا یہ قرینہ تو لگ بھگ فیض کے اس کہے پر چلنے کی کوشش سا ہوگیا ہے کہ: متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہےکہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نےنئے وقت کے تناظر میں فیض کی شاعری کا مطالعہ میرے لیے بہت پر لطف رہا ہے ۔ دیکھیے ایک طرف نام نہاد روشن خیالی اور مجہول اعتدال پسندی کے پر فریب نغمے گونج رہے ہیں اور ادھر فیض کی شاعری ہے جس میں در زنداں پر صبا کی دستک کی بات ہوتی ہے۔ ایک طرف استعمار کے لاڈلے اپنے محبوب کی ہر قاتلانہ کروٹ پر سبحان اللہ اور ہر ٹھوکر پر حسبی اللہ کہتے نہیں تھک رہے اور دوسری طرف فیض کا فرمانا ہے :بول ،کہ لب آزاد ہیں تیرےبول ، زباں اب تک تیری ہےدیکھ کہ آہنگر کی دکاں میںتند ہیں شعلے سرخ ہیں آہنکُھلنے لگے قفلوں کے دہانےپھیلا ہر اک ز نجیر کا دامنبول ، یہ تھوڑا وقت بہت ہےجسم وزباں کی موت سے پہلےبول، کہ سچ زندہ ہے اب تکبول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لےفیض کا معاملہ یہ تھا کہ اس کے ہاں جسم کی موت اور زبان کی موت دو الگ الگ کیفیتیں تھیں جب کہ اس نئے عہد کے جملہ وارثان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے لیے زبان کی موت سرے سے کوئی حادثہ ہی نہیں ہے۔ اور اس پر ایک اور سانحہ یہ گزرا ہے کہ ایسے میں ہمیں سمجھایا جارہا ہے کہ زبانیں اہم ہوتی ہیں نہ ان کے بولنے والے ۔ کہ اب صرف منڈی کی زبان اور منڈی کے آدمی کا چلن ہوگا ۔ ہمیں یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ کسی نظامِ فکر کی بات کرنا یا کسی نظام حیات سے وابستہ ہونا سب لا یعنی اور فرسودہ باتیں ہیں۔ ایسے میں فیض کو پڑھنا اور اس انسان کی بابت سوچنا جو مادے اور منڈی کے اس زمانے میں کائنات کے مرکز سے دھکیل کر حاشیے پر بھیج دیا گیا ہے اور ان افکار کی بابت سوچنا جس میں آدمی کا آدمی سے جڑنا اہم ہو جاتا ہے۔ آدمی جو فرد بھی ہے اور اجتماع سے جڑ کر انسانیت بھی تشکیل دیتا ہے ۔ فیض کی شاعری ہمیں اسی انسانیت پر حملہ آور ہونے والے سامراج کے خلاف بغاوت پر اکساتی ہے۔یہ شاعری بتاتی ہے کہ سامراجیت ہر اک سیاہ شاخ کی کماں سے جتنے بھی تیر چلائے گئے وہ سب انسانیت کے جگر میں پیوست ہو کر ٹوٹے ہیں۔ تاہم زندہ معاشروں کا یہ چلن رہا ہے کہ انہوں نے ان تیروں کو اپنے جگر سے نوچ کر تیشہ بنا لیا ہے۔ماننا پڑے گا کہ فیض اپنے دھیمے مزاج اور خود ضبطی کو چلن بنا لینے کی وجہ سے ان ترقی پسند وں سے بہت مختلف ہو گئے تھے جو اپنے بلند آہنگ شاعری سے فلک میں شگاف ڈالنے اور اپنی تدبیروں سے اسی آسمان میں تھگلی لگانے کے جتن کرتے کرتے ہلکان ہوئے۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ فیض کو رومانی رویہ عزیز رہامگر اس سے کون منکر ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں مسلسل زندگی کی تلخ حقیقتوں کی طرف لپکتے رہے ہیں اور اسی لپک کی للک کو اپنے تخلیقی وجود کا حصہ بناتے رہے ہیں۔ اسی علاقے سے انہوں نے اپنی شاعری کے لیے جمالیاتی قرینے اخذ کیے اور یہ ایسے قرینے ہیں کہ ہم جیسے فیض کے ہاں دو آوازیں الگ سے شناخت کرنے والے بھی ان کی شاعری کے کشتگاں میں شامل ہو گئے ہیں ۔ فیض نے آہنگ کے دیباچے میں مجاز کو انقلاب کا مطرب کہا تھا اور کسی نے خوب کہا ہے کہ انقلاب کے مطرب تو خود فیض تھے ۔ ایک نئی طرز فغاں ایجاد کرنے والے۔ اور ایک ایسے انقلابی شاعر کہ جس کی شاعری پڑھتے ہوئے دل جھوم جھوم اٹھتا ہے اور قدموں میں مقتل کی طرف اٹھنے کا حوصلہ آجاتا ہے:رختِ دِل باندھ لو ، دل فگارو چلوپھر ہمیں قتل ہو آئیں ، یارو چلویا پھرشب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پرجابجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کرڈوبتے، تیرتے، مرجھاتے رہے، کھلتے رہےرات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے یہیں بتاتا چلوں کہ رات فیض کی شاعری کا ایک مرکزی استعارے کی صورت ظاہر ہوتی ہے جس کے مقابل وہ صبح اور طلوع سحر کو لے کر آتے رہے ہیں ۔رات باقی تھی ابھی سر بالیں آکرچاند نے مجھ سے کہا ، جاگ سحر آئی ہےجاگ اس شب، جو مئے خواب ترا حصہ تھیجام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہےہاں تو میں فیض کی شاعری کی جمالیاتی سلطنت کی بات کر رہا تھا اور اسی باب میں مجھے یہ کہنا ہے کہ فیض نے اپنی تہذیبی روایت سے ملنے والی زبان اور تمثالوں کو نئی معنویت کی مہک اور تاثیر کی کرامت عطا کی تھی۔ میں مانتا ہوں کہ کسی بھی فرد کی شاعری میں مضامین کی تکرار بہت کھٹکتی ہے ۔ فیض کے ناقدین اس جانب انگشت نمائی کرتے آئے ہیں مگر میرا کہنا یہ ہے کہ فیض نے اپنے جمالیاتی وسیلوں سے دہرائے ہوئے مضامین کو الفاظ کے تخلیقی استعمال اور لہجے کو گداز رکھ کر اتنا مختلف بنا لیا تھا کہ پڑھنے والے کے سیدھا دل پر ہاتھ پڑتاہے ۔ فیض کے اسی ہنر کا قرینہ ہے کہ روایت کے خزینے سے وہ اپنی محبوبہ کے لیے رسوا ہوتے عاشق کو نکالتے ہیں اور اسے انقلابی بنا دیتے ہیں ۔ یہاں گوشت پوست محبوبہ بھی اپنا منصب بدل کر انقلاب کی ساعت سعیدہو جاتی ہے۔ ایک طرف فیض کے ہاںرقیب روسیاہ، سامراجیت کی علامت بنا ،محتسب اور شیخ جی جیسے سامراج کے ہرکارے ٹھہرے، جنوں سماجی انصاف کی للک ہوا ، عقل عیار عسکری نظام سے سمجھوتے کا نشان بن گئی اور وصل کے معنی انقلاب ہو گئے تو دوسری طرف فیض کے ہاں یہ قرینہ بھی ملتا ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے ان معنوں اور کیفیات کو سرے سے تلف نہیں ہونے دیتے جو ہماری تہذیبی اور شعری روایت کے اندر ان الفاظ اور تراکیب سے وابستہ چلے آتے ہیں ۔نہ سوال ِ وصل، نہ عرض ِ غم، نہ حکایتیں نہ شکائتیںتیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئےفیض کی شاعری کا فیضان یہ بھی ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے ایک عجب طرح کے درد کی لذت عطا ہوتی ہے۔ وہ وجود جو لمحہ لمحہ منہدم ہورہے ہوتے ہیں ،توانائی اور قوت کی مئے سے مست ہو کر جھومنے لگتے ہیں۔ اس مئے کی مستی میں کوئی بھی محرومی یا نارسائی ،رسوائی یا دل شکستگی کا سامان نہیں ہوتی، عزم اور حوصلے کا نشان ہو جاتی ہے۔اسی شاعری کا اعجاز ہے کہ زنداں کا پھاٹک محبوب کے آستان کادروازہ بن جاتاہے اوراحترامِ آدمیت کی منزل ،وصل جیسے لطف کا بدل ٹھہرتی ہے ۔ میں نے کہا نا کہ فیض کی شاعری میں ظلم ، ظالم، اہل جنوں، اہل ہوس، مدعی، منصفی، طواف ، جسم و جان ، فلک ، فراق جیسے بظاہر روایتی الفاظ آئے ہی چلے جاتے ہیں اور یہ بھی کہہ آیا ہوں کہ فیض کا سوذ دروں اور مزاج کی نرمی پاکر یہ الفاظ ایک نفاست اور خاص تخلیقی قرینے سے متن کا حصہ ہوتے ہیں جو صرف فیض ہی سے مختص ہے۔ یہاں اپنی بات دہر اکر یہ اضافہ کرنا مقصود ہے کہ اس تخلیقی قرینے نے فیض کی شاعری میں اپنی تہذیبی زندگی کے بھید کو بھی ایک معنیاتی پرت کے طورمحفوظ کر دیا ہے۔ فیض کے ہاںموضوع سخن ہو جانے والی زنداں کی ایک شام ہو یا زنداں کی ایک صبح ،مجھے کسی نہ کسی حوالے سے آج کے عہد سے جڑی ہوئی لگتی ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ زینہ زینہ شام اتر چکی ہے۔ ہمارے روشن تہذ یبی وجود کو لمحہ لمحہ قدم جمانے والی رات نگل لینے کے جتن کر رہی ہے ۔ ہمارا تہذیبی وجود کیا خود انسانیت کو منڈی کی معیشت چرکے پرچرکا لگا رہی ہے ۔ تہذیبی مکالمے کا فلسفہ مات کھا رہا ہے اور تہذیبی تصادم کی تھیوری کا الاﺅ خوب خوب دھکایا جا رہا ہے ۔ ایسے میں فیض کی شاعری کے ساتھ جڑنا ایک لحاظ سے سیاہ رات کی لمبی سرنگ کے دوسرے کنارے پر موجود اس روشن صبح کی امید سے جڑنا ہے جسے بہرحال ایک نہ ایک روز انسانیت کے بخت کا مقدر ہونا ہے۔ فی الاصل فیض اپنی زندگی میں ہی ان شاعروں میں پہچانے جاتے تھے جو اپنے بخت کا مقدر پالینے کے لیے جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے تاہم وہ ان شاعروں سے الگ پہچانے جانے لگے تھے جن کے ہاں تجربہ اور حقیقت سامنے کی چیز ہیں۔ فیض کا قرینہ یہ رہا ہے کہ وہ اسے اپنے دھیمے رومانی مزاج کے معطر پانیوں سے دھو کر اور اپنے جذبوں کی نرم نرم مگر مسلسل آنچ سے تپا کر یوں چمکا لیا کرتے تھے کہ مصرعے کی تاثیر بدل جاتی تھی ۔ یہی سبب ہے کہ سحر، رات ، ظلمت، سویرا، مہتاب، ستارے ، نور ،افلاک جیسے عام سے الفاظ کا ذخیرہ فیض کی شاعری میں عام نہیں رہتا، اپنی الگ جمالیاتی قدر بنالینے کی وجہ سے بہت اَہم ہو جاتاہے ۔ یہی لطیف جمالیاتی قدر، اجتماعی فرد سے جڑت اور انسانیت کش سامراج سے شدید نفرت اردو شاعری کے باب میں فیض کی عطا ہے اور یہ ایسی عطا ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔

جو ن ایلیا

جو ن ایلیا کے نام ایک خط جو ڈیڈ لیٹر ثابت ہوا
جون ایلیا کی وفات کے ٹھیک ایک برس بعد ہمارے نظم نگار دوست مقصود وفا فیصل آباد سے اپنے جریدے کا خاص نمبر لانا چاہتے تھے ۔مقصود نے گزشتہ ایک شمارے میں جون کے کچھ متنازعہ خطوط چھاپے جن کی گونج ابھی باقی تھی ۔ مقصود کے اصرار پر جب جون کی شاعری پر لکھنے بیٹھا تو یہ خط کمپوز ہو گیا تھا ۔ مقصود کا جریدہ بوجوہ شائع نہ ہو سکا اور یہ تحریر بھی ادھر ادھر ہوگئی ۔ کچھ روز پہلے کچھ اور تلاش کرتے ہوئے اس پر نظر پڑی تو یوں لگا جیسے یہ ایک ڈیڈ لیٹر تھا۔ مرنے والے ایسے خطوط سے بے نیاز ہوہی جایا کرتے ہیں ۔


اے جون ایلیا: فقط تمہارے لیے
محمد حمید شاہد


پیارے جون ! آداب
مرنا ہر کسی کو ہوتا ہے‘ اس لیے وہ مر جاتا ہے ....گذشتہ نومبر کے پہلے دہے میں تمہاری مدت حیات بھی تمام ہوگئی....مگر مجھے دیکھو کہ میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں ۔ ایک گزرے ہوئے شخص کو خط .... تم چاہو تو قہقہہ لگا سکتے ہو ۔ مجھے بھی اپنی یہ حرکت بڑی احمقانہ لگتی ہے اور میں نہیں جانتا تمہیں یہ پرچہ عدم آباد کے پتے پر مل بھی پا ئے گا ۔ ویسے سچ پو چھو تو اس کا تمہیں ملنا یا نہ ملنا میرا مسئلہ نہیں ہے ۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ میں نے تمہارے وہ خطوط پڑھ لیے ہیں جن میں تمہاری روح حلول کر گئی ہے اور اب یہ صورت ہے کہ میں کوریا کے ان باشندوں جیسا ہوگیا ہوں جنہیں یقین تھا کہ درختوں کے نیچے مرنے والوں کی روحیں ہمیشہ کے لیے چھال کے اندر لکڑی میں اتر جاتی ہیں ۔وہ درختوں کو کاٹتے ہوئے کیک شراب سور کا گوشت نذرانہ پیش کرتے تھے۔ میں نے تمہارے خط پڑھے تو مجھے یوں لگا جیسے نذرانے میں تمہاری روح مجھ سے الفاظ مانگتی تھی اور مجھے یہی مناسب معلوم ہوا کہ اس معاملے میں تمہارا تتبع کروں لہذا خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں ۔پیارے جون ‘ ذرا مڑ کر دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ مدت ِمدید سے جس نے خون تھوکنے کو اپنا وتیرہ کر لیا ہو ‘ کچھ ایسا وتیرہ کہ وہ اس کا پیشہ دِکھنے لگے تو اس کے ساتھ چلنے والوں کا اوب جاناانہونی کا ہونا نہیں ہوتا:خون بھی تھوکا ‘سچ مچ تھوکا‘ اور یہ سب چالاکی تھیلہذا تمہارے ساتھ بھی ویسا ہی ہوا جیسا ایسے مےں ہوتا ہے .... حتی کہ تمہیں اپنوں کی اکتائی ہوئی آوازیں صاف صاف سنائی دےنے لگیں:جون: او خون تھوکنے والے !اب دِکھانا تجھے ہے کرتب کیا؟ اور تم نے یہ کرتب دکھایا کہ موت کی بانہوں میں سمٹ کر مر گئے:یارو ! کچھ تو ذکر کرو تم اس کی قیامت بانہوں کاوہ جو سمٹتے ہوں گے ان میں ‘ وہ تو مر جاتے ہوں گےیہاں اس شعر کا محل کیا ہے؟ تم نے ہونٹوں میں ہنسی دابنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے‘ شعر فہمی کے معاملہ میں‘ میرے ٹھوکر کھانے کی بابت گما ں باندھاہو گا اور سوچا ہوگا کہ” موت“ اور” محبوبہ“ کوہم مرتبہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے ۔ تم ایسا سوچ سکتے ہو کہ تم بے پناہ محبت کی طلب میں مرتے رہنے کا چلن رکھتے تھے‘ مگروہ جو” محبوبہ“ کا عالی رتبہ پا لے اس کی محبت میں شاعرانہ انا کو مار دینے کا یارا شاید تم میں نہیں تھا ۔ ایسے میں زاہدہ حنا کے نا م ۵۱ نومبر ۹۶۹۱ءکو لکھے گئے تمہارے خط کے یہ جملے یاد آتے ہیں :”آج مجھے نہ جانے کیوں ایک بات ہمیشہ سے زیادہ محسوس ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ مجھے کسی نے چاہا نہیں ایسا چاہنا جسے واقعی چاہنا کہتے ہیں اور کسی قدر چاہا بھی تو اس کے ساتھ وہ سب کچھ بھی کیا جو بدخواہ اور دشمن ہی کر سکتا ہے ۔ میری غیبت ‘ برائی ‘میرے خلاف زبان اور وقت پر میرا ساتھ نہ دینا وغیرہ وغیرہ“جسے اپنے چاہنے والے کی بابت ایسے وسوسے سنپولوں کی طرح ڈسنے لگیں وہ اکثر اپنے محبوب کو کھو دیتا ہے ۔ رولومے نے کہا تھا کہ ایسے لوگ بہت جلد تنہا ہو جاتے ہیں اور یہ تنہائی خالی پن لے آتی ہے ۔ وہ چھٹاخط جس پر کوئی تاریخ درج نہیں مگر جسے تم نے مقصود وفا کو دیتے ہوئے باقی خطوط کے ساتھ اس کے چھپنے کی خواہش کی تھی اسی خالی پن کا شاخسانہ لگتا ہے ۔اے جون !میں تمہارے حق میں لکھنے بیٹھا تھا خدا گواہ لکھنا بھی تمہارے حق میں چاہتا ہو ں کہ ہماری تہذیب میں مرنے والوں کی صرف نیکیاں گنوائی جاتی ہیں مگردل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس قلم کو نہیں روک پا رہا جو فکشن نگار زاہدہ حنا اور تمہارے بچوںکی خاموش اذیت کو محسوس کر کے بہک گیا ہے۔ کاش تم نے یہ خط نہ لکھے ہوتے ‘ لکھے تھے تو چھپنے کو نہ دیئے ہوتے‘ چھپ گئے تھے تو میری آنکھیں پھوٹ گئیں ہوتیں اور میں نے نہ پڑھے ہوتے ۔ مگر حیف کہ یہ سب کچھ ہوا ہے اوراس کے باوجود کہ تمہارے مجموعے ” یعنی“ کی بعد از وفات کی اشاعت کی خبر نے مجھے چونکایا‘ ان خطوط کے لفظوں میں بھری آگ میں بھسم ہوتا رہا ہوں ۔ اب یہ سطریں لکھ بیٹھا ہوں تو یوں ہے کہ میرے دل کا غبار چھٹ گیا ہے ۔ میں تمہاری طرف دیکھ کر نادم ہورہا ہوں کہ تم میری راہ روکے نہ جانے کب سے اپنی کھوکھلی رانوں پر استخوانی پنجے مارتے ہوئے دہرائے جاتے ہو:بولتے کیوں نہیں مرے حق میںآبلے پڑ گئے زبان میں کیاپیارے جون‘ تم جانتے ہو کہ ادب کی طریقت میں کسی کے حق میں بولنے کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ اس کے فن اور اس کی فکر کو گفتگو کے لائق جانا جائے ۔سو ان معنوں میں‘ میںجو عین آغاز میں کہہ آیا ہوں اسے بھی اپنے حق میں کہا ہوا جانو ۔ اور ہاں سنو میں تمہارے مزاج سے آگاہ ہوں اور جانتا ہوں کہ تم مزاج کے اعتبار سے ترقی پسند نہ تھے ترقی پسندوں کی صحبت میں بیٹھ کر خود کو ان جیسا سمجھ بیٹھے تھے۔ کوں جانے کہ یہ ان کا بہکاوا تھا یا ان حلقوں تک سرایت کیے رکھنے کی تہاری للک کہ بظاہر تم ”اعلان جنگ“ سے کم پر راضی ہونے والوں میں سے نظر نہیں آتے تھے.... کم از کم تمہارے پہلے مجموعے ”شاید“ سے تو یہی پتہ چلتا ہے .... تاہم ادھر کان دھرو تو ایک بات کہوں کہ اس باب تم مجاز اور جالب کے بیچ بھٹکتے رہے ہو ۔تمہارا المیہ تو وہ بھی نہیں بنتا جو فیض احمد فیض کا بن گیا تھا ‘ وہی دو آوازوں والا۔ تم نے لکھا تھا:”................................الم نصیبو! بہادری سے‘ ستم نصیبو ! بہادری سے صفوں کو اپنی درست کرلو کہ جنگ آغاز ہو چکی ہے................................“(اعلان جنگ) مگر حرام ہے کہ ا لم نصیبوں اور ستم نصیبوںکے کانوں پر جوں تک رینگی ہو۔ تاہم جب تم نے یہ کہا کہ:خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھیمیں بھی برباد ہو گیا تو بھیتو سب تڑپ اٹھے یوں جیسے بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں اور ایک خنجر سا دل میں اترتا محسوس کر رہے ہوں۔ تم ترقی پسندوں کے نرغے میں رہنے کے سبب جو ”انقلابی “ شاعری کرتے رہے اس کی لپک نرغہ ڈالنے والوں تک رہی ہو تو رہی ہو اس سے آگے نہ بڑھی۔ میں نے ایسی شاعری کو پوری توجہ سے پڑھا ....شاعری کو بھی اور اس بحث کو بھی جو ”شاید“ کے مفصل دیباچے میں تم نے کی ہے۔ مگر طرفہ دیکھو کہ میں تمہاری ترقی پسندی کے باب میں جس قدر الجھتا جاتا تھا تمہاری رومانوی رویے کی صداقت پر اتنا ہی ایمان پختہ ہوتاجاتا تھا ۔جان من جون! ”شاید“ کے دیباچہ ”نیازمندانہ“ کا ذکر چل نکلا ہے تو جی چاہنے لگا ہے کہ جنہیں تم نے اپنی فکری بنیادیں قرار دیا انہیں ذرا ترتیب سے دہرالوں ۔ کیا تم یہی کہنا چاہتے تھے نا!.... بقول تمہارے:٭ .... تمہارا سب سے بڑا مسئلہ یقین سے محروم ہو جانے کی اذیت سے تعلق رکھتا تھا۔٭ ....ارتیابیت تمہارے نزدیک خوش آئند کیفیت نہیں تھی۔٭ ....کائنات کی مابعدالطبیعاتی توجیہہ تمہارے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی تھی٭ ....دلیل ولیل کچھ نہیں ہوتی یہ توتاریخی ‘ سماجی اور نفسیاتی تکییف (conditioning) ہوتی ہے جو کسی رائے اور مسلک کو رجحان پیدا کرتی ہے ۔جس یقین کے ساتھ تم یقین سے محروم ہونے کی بات کرتے ہو اس سے تمہارے بے یقین ہونے کا معاملہ مشکوک ہو جاتا ہے ۔ بس ہوا یہ ہے کہ تم عین اٹھتی عمر میں ہیوم کو پڑھ کر چونکے ‘ اس سے پہلے ترقی پسند تم پر وار کر چکے تھے بس پھر کیا تھا ‘بقول تمہارے تم ”دین دنیا سے جاتے رہے“ یہ تم سمجھتے ہو .... یا شاید تم ہمیں یہی کچھ بآور کرانا چاہتے ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جس طرح تم چونکے تھے اسی طرح اوروں کو چونکانا چاہتے تھے ۔ تمہاری شاعری کی روح کا یہ حصہ نہ ہو سکا تو تم نے دیباچے کا حصہ بنا دیا ۔ مگر یہ تو ایسا ہی تل نکلا جو گوری چٹی خاتون نے سلیمانی سرمے سے عین گال پر لگایا تھا اور پہلے بوسے ہی میں اڑنچھو ہو گیا ۔ میرا جی چاہنے لگا ہے جون کہ اب تمہاری شخصیت کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ان جبری دھاروں کو نظر میں سمو لوں جو بہر طور تمہارے مقدر کا حصہ ہو گئے تھے ۔ بے شک تم نے جب اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ” میں تو ایک جاہل ہوں ۔ agnostic ہوں “ تو ساتھ ہی تقدیر کی نفی کی تھی۔ تم مقدر کے اس جبر کو شناخت کر رہے تھے جس کی سبب انسان ایک” سلسلہ واقعات“ سے نہیں نکل سکتا مگر اسے تقدیر ماننے سے انکاری تھے اور کہتے تھے کہ ”اس کا ماورائی ہونا ضروری نہیں “۔ مجھے تمہارے فکری الجھاووں کا سلسلہ تمہارے اس اعتراف سے جڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے جس کے مطابق تم ” تشکیک “کی” عذاب ناکی“ سے دو چار تھے۔ ہاں تو میں اس جبر کی بات کر رہا تھا جو تمہارے نزدیک تقدیر نہیں اور میرے لیے تقدیر ہی کا درجہ رکھتی ہے کہ تم اس بارہ میں انتخاب کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے ۔ مثلا یہ کہ ۔تم امروہہ میں پیدا ہوئے‘ ۶۳۹۱ کا سال تھا اور مارچ یا پھر دسمبر کا مہینہ۔ ۔تمہیں علمی ماحول یوں میسر آیا کہ تمہارے دادا‘پردادا شاعر تھے اور تمہارے والد شفیق حسن ایلیا بھی۔۔تمہارے تینوں بھائی کمال امروہوی‘ رئیس امروہوی اور سید محمد تقی بھی شاعر یا فلسفی نکلے۔تم امروہہ کے اس علمی ادبی فضا میں پیدا نہ ہوتے چیچوں کی ملیاں کی کسی تاریک گلی میں بسنے والے اس مفلس کے گھر پیدا ہوتے جس کے باپ داد سب ان پڑھ تھے اور جس کے نزدیک لفظ ‘ معنی اور جمال کی بحث بے ہودہ اور صرف چکی کی مشقت واجب ہو جاتی ہے تو کیا تم پھر بھی اس کینڈے کے شاعر بن کر نکل سکتے تھے ؟ اور کیا تم پھر بھی تقدیر کا یوں ہی انکار کر دیتے؟ .... میں جانتا ہوں تمہارا منطقی ذہن دونوں بار” نہیں “کہنے پر مجبور ہوگا .... مگر میرا حوصلہ دیکھو کہ میں دونوں سوالوں کا جواب” ہاں“میں دینا چا ہتا ہوں .... اس لیے کہ میں مقدر پر یقین رکھتا ہوں ....اور جس کے مقدر میں ہوتا ہے الفاظ اس کا سینہ روشن کر دیتے ہیں اور منزلیں خود اس کے لیے بانہیں وا کیے چلی آتی ہیں تاہم اس تقدیر کی بھی ایک منطق ہے کہ اس کے لیے اپنا اپنا”خنجر تیز رکھنا“ پڑتا ہے ۔ تو جون جی تقدیر اورماورا کے حوالے سے اپنے آپ کو agnostic کہہ کر تم جو تضاد کی دھند بنا گئے ہو کوشش سے بھی وہ صاف نہیں ہوتی خصوصا وہ جو تمہارے شعروں میں در آئی ہے ۔ مثلا جب تم یہ کہتے ہو کہ :اب فقط عادتوں کی ورزش ہے روح شامل نہیں شکایت میںیا پھر....سلسلہ جنباں اک تنہا سے روح کسی تنہا کی تھیایک آواز ابھی آئی تھی ‘ وہ آواز ہوا کی تھیتو میں نہیں جانتا اے میرے پیارے جون ‘ تمہارے agnostic ذہن میں اس ”روح“ کے کیا معنی نکلتے ہیں ۔ فی الاصل ماورا تمہارے اندر کہیں یقین کی طرح موجود ہے تبھی تو روح کی روح تمہارے شعروں میں دندناتی پھرتی ہے۔ دیکھو جون ‘ یہ روح وہ خاص جوہر ہی تو ہے جو فکروشعور اور عقل و تمیز کا اختیار رکھتا ہے ۔ اس بارہ میں میرے خدا کا کہا سنو‘ جس کے اب تم مہمان ہو اور جس پر میں کامل ایمان رکھتا ہوں۔ ”یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے ہوئے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا“۔(القرآن۔ سورہ الحجر:۸۲‘۹۲)....یوں میرے ایمان کے مطابق تمہارے شعروں میں در آنے والی روح اس خدا کا ہلکا سا پرتو ہی تو ہے جس کی بابت تم خود تشکیل کردہ شک کے ابتلا سے دوچار ہو کر کہنے لگے تھے ۔حاصل ’کن‘ ہے جہان خراباتیہی ممکن تھا اتنی عجلت میںپھر بنایا خدا نے آدم کواپنی صورت پہ ایسی صورت میںاور پھر آدمی نے غور کیاچھپکلی کی لطیف صنعت میںاے خدا (جو کہیں نہیں موجود)کیا لکھا ہے ہماری قسمت میںلو ‘ یہیں اس الجھیڑے کا ذکر بھی ضروری ہو گیا ہے جسے تم نے دیباچے میں ملکتے ہوئے ”تعقل کے خانوادے کی جدہ عالیہ منطق اور جد عالی تفلسف “ کا مسئلہ قرار دیا ۔ تم نہ جانے کیوں اس بحث کو اٹھانے سے پہلے اوروں کے کندھوں باری باری بندوق رکھ رہے تھے ۔٭ .... تم نے بیکن کے منہ سے کہلوایا کہ یہ مسئلہ اتنا ہی پیچیدہ ہے کہ منطقی قیاس کے قابو میں نہیں آسکتا ۔٭ .... کانٹ کے اس قول سے مدد چاہی کہ مابعد الطبیعی امور کو منطقی استدلال کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ مذہب اور خدا عقل کی دست رس سے باہر ہیں۔٭ .... مسمی پلوٹی نس کا اسم نقل کرکے تم نے بتایا کہ خدا کے بارے میں یہ کہنا روا نہیں کہ وہ موجود ہے وہ تو وجود سے بر تر اور بر تر ہستی ہے٭ ....پھر تم ہماری محبتوں کا محور دیکھتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول سنانے لگے کہ ” کمال الاخلاص لہ نفی الصفات عنہ“ ٭ .... حلاج‘ ارسطو‘کانٹ اور ہیگل کا نام لے لے کر تم نے بتا یا کہ وجود اور موجود کی کوئی بھی تعریف متعین نہیں کر سکا۔یوں تم نے استخراج کیا کہ وجود کا متردف ماہیت کا خارج میں ہونا ہے اوریہ کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ خدا ہے تو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خدا شے ہے یہیں تمہارے منطقی ذہن نے پانسہ پلٹا اور دور کی کوڑی لایا کہ اگر خدا شے نہیں ہے تو لا شے ہے ۔ لاشے کے تم نے ہمارا دل رکھنے کو دو مفہوم نکالے ورنہ تم تو ایک ہی مفہوم کی طرف ہمیں گھسیٹے جاتے تھے لاسے کا ایک مفہوم جو تم ہنیں سجھانا چاہتے تھے ’لاموجود‘ تھا اور دوسرا جو ہمارے لیے تم نے نکالا وہ یہ تھا ”وہ موجود جو شے نہ ہو کچھ اور ہو “ یہ سوال ایسا تھا جس کے سبب تمہاری سارے استدلال کی عمارت ڈھے رہی تھی لہذا تم نے کہہ دیا ” کچھ اور کیا؟“.... کاش تم نے اس بزرگ کا ڈھیلا کھایا ہوتا جس سے سوال کرنے والے نے اصرار کیا تھا کہ اسے خدا دکھایا جائے ۔ جسے ڈھیلا کس کر مارا گیا تھا وہ چوٹ کھا کر درد سے بلبلا اٹھا تو بزرگ نے پوچھا کیوں روتے ہو ۔ اس نے کہا ”درد ہے“ ۔ بزرگ کا کہنا تھا درد موجود ہے تو دکھاﺅ کیسا ہے ؟ ۔ اگر ڈھیلا تم نے کھایا ہوتا تو اس موجود کے معنی بھی پتہ چل جاتے جو شے نہیں ہوتا اور یہ پٹا ہوا سوال فلسفیوں کے سلجھانے (یا پھر مزید الجھانے )کے لیے نہ اٹھا رکھتے۔ اور ہاں میں تمہاری ایسے سوالات کی ایسی ویسی الجھی ہوئی شاعری پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں اور الجھتا ہوں کہ میرا محبوب شاعر جون کہاں ہے؟ .... معاملہ یہ ہے کہ تمہاری شاعری میں اس طرح کے فکری اور ایقانی معاملات ترقی پسندانہ موضوعات کی طرح تمہارا تخلیقی مسئلہ بن ہی نہیں پائے ہیں ۔ سچ ہے کہ تخلیق صرف سچے وجود تک علاقہ رکھتی ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان مباحث سے کہیں زیادہ مجھے وہاں لطف آیا ہے جہاں تم نے لکھا تھا: ” ....اگر انسانی ناف کے اوپر بالوں کی لکیر نہ پائی جاتی تو آخر کس نظامیات بدنی کو نقصان پہنچ جاتا؟ میں نے اپنی بعض محبوبات کی پنڈلیوں پربالوں کی جھلک دیکھی ہے اور بعض کی پنڈلیاں بالکل صاف پائی ہیں ۔ بعض محبوبات کا پیالہ ناف گہرا پایا ہے بعض کا اتھلا “ سنو جون پیارے ‘اس کے باوجو د کہ تم نے ایک انٹرویو میں اپنی جنسی زندگی کو قابل رحم حد تک کم بتایا اور حساب لگایا تو وہ پانچ برس نکلی‘ اس کے باوجود ناف پیالے اور پنڈلیوں والا تجربہ مابعدالطبیعاتی سوال سی کہیں زیادہ رچاﺅ کے ساتھ تمہاری شاعری کا حصہ ہو گیا ہے ۔ لو اپنے کچھ اشعار سنو اور لذت لو:تھا مست اس کے ناف پیالے کا میرا دلاس لب کی آرزو میں مرا رنگ لال تھا ٭اپنی ورزش کے دھیان ہی سے ہمیںمار رکھتے ہیں صندلیں راناں٭میرا حق تو یہ تھا کہ گرد مرےہو اک انبوہ نار پستاناں٭تھا جون اس کا ناف پیالہ یا مے کدہ بس لڑکھڑا کے تشنہ لباناں چلے گئے٭اتھلا سا ناف پیالہ ہماری نہیں تلاش اے لڑکیو! بتاﺅ بھنور کس کے پاس ہے٭یہ میرا جوش محبت فقط عبارت ہے تمہاری چمپئی رانوں کو نوچ کھانے سے٭کیا بھلا ساغر سفال کہ ہمناف پیالے کو جام کر رہے ہیںتو پیارے جون بے شک تم نعرے لگا کر چونکاتے رہے کہ ”وہ یقیں ہے نہ گماں ہے تننا ھو یا ھو“ مگر تن پر تمہارے ایسے تنتناتے شعروں کا طنطنہ ساری توجہ لے گیا۔تاہم ان ساری معروضات سے یہ نہ سمجھ لینا کہ جس توجہ سے تم نے”شاید“ کے دیباچے میں ان مباحث کو اٹھایا ہے اور پہلو بدل بدل کر مسلمات کے انہدام کی شعوری کوشش کی ہے مجھے وہ دلچسپ نہیں لگی۔ مجھے تو شروع ہی سے یہ کئی جہتوں کو زور دیتی بحث بہت لطف دیتی رہی حتی کہ میں ایک مرحلے پر یہ سمجھنے لگا تھا کہ بعد ازاں شاید یہ سب کچھ تمہارے شعری شعور کا حصہ ہو جائے گا.... مگر آہ کہ ایسا نہ ہوا.... واقعہ تو یہ ہے کہ دوسری کتاب تک آتے آتے ایسے سوالات کی شدت اور تمہاری ترقی پسندانہ بلند آہنگی دونوں عنقا ہو چکی تھیں۔ جون جی ‘ اب تک اس حوالے سے ہی بات ہو پائی ہے جو تم اپنے شعری واردات میں نہیں تھے مگر اپنی نثر اس کا دعوی رکھتے رہے ۔ نفی کی بات طول پکڑ گئی ہے لہذامناسب معلوم ہوتا ہے ذرا ادھر کو ہو لیں جہاں تمہارا جیتا جاگتا وجود موجود ہے ۔ میں نے جتنا بھی تمہیں پڑھا‘ میں تمہارے تہذیبی شعور سے سرشار ہوا ۔ تمہاری غزل پوری طرح غزل کی روایت سے ہم آہنگ ہے ۔ تم نئی نئی ردیفیں لا کر اس ہنر سے غزلیں کہتے آئے ہو کہ غزل کہنے والے بہت سے مقامات پر تمہاری تقلید پر مجبور ہوئے ۔جی چاہتا ہے یہاں تمہاری ان غزلوں کی نشاندھی کی لیے کچھ اشعار درج کردوں جن کی گونج تمہارے معروف ہم عصروں کی ہاں صاف سنائی دے رہی ہے:میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بسخود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں٭نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہمبچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم ٭جاﺅ قرار بے دلاں‘ شام بخیر شب بخیرصحن ہوا دھواں دھواں‘ شام بخیر شب بخیر٭ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھبے وفائی کی انتہا کیجے٭نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئےتیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے ٭نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظرجہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو٭محبت کچھ نہ تھی جز بدحواسیکہ وہ بند قبا ہم سے کھلا نئیںمجھے تمہاری وہ غزلیں یاد آئے چلی جاتی ہیں جن کی خوشبو تمہاری گلی سے نکلی اور گلی گلی گئی اور جن سے ابھی تک سارا منظر نامہ مہکا ہوا ہے ۔لو تمہاری کچھ اور ایسی ہی مقبول غزلوں کی نشاندھی کئے دیتا ہوں ۔تم کہ گھٹنوں پر اوپر کو اٹھ کر ‘ ایک ادا سے لمبی زلفیں لہراتے اور ڈرامہ کرتے ہوئے اپنی ہی رانوں کو پیٹ کر انہیں سنانے کے لیے موجود نہیں ہو مگر انہیں سننے‘ پڑھنے اوران کی دھمک سینوں پر سہنے والے موجود ہیں اور تادیر موجود رہیں گے: جا بھی فقیہ سبز قدم‘ اب یہاں سے جا میں تیری بات پی گیا پر یار سرخ ہیں٭کون اس گھر کی دیکھ بھال کرےروز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے ٭کیا وہ بساط الٹ گئی؟ ہاں وہ بساط الٹ گئیکیا وہ جواں گزر گئے ؟ ہاں وہ جواں گزر گئے٭ہے بکھرنے کو یہ محفل رنگ وبو‘ تم کہاں جاﺅ گے ‘ ہم کہاں جائیں گےہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو ‘تم کہاں جاﺅ گے ‘ ہم کہاں جائیں گے٭ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میںایک خنک سی روشنی مجھ کو بچھا کے لے گئیتو جون جی‘ انہی غزلوں میں تو تم ہو ....اپنے سچے اور مکمل وجود کے ساتھ .... کہیں شک کا شائبہ نہیں ہے ‘ کہیں فکری الجھاوا نہیں ہے ۔ اس لیے کہ تم فی الاصل فکری آدمی نہیں تھے.... فکری ‘نہ انقلابی ۔ تم تو چائے کی پیالی پیتے پیتے رو دینے والے تھے ۔ روتے روتے ہنس دیتے ‘ گم صم ہو جاتے۔ تم پڑھتے بہت تھے مگر اس کی کوئی سمت نہ تھی لہذا تمہیں بھی خاص سمت نہ مل سکی ‘الجھتے گئے۔ مربوط ہونا جانتے نہ تھے ‘مبغوض ہو گئے ‘اپنوں پر یوں بھڑکے جیسے آگ بھڑکتی ہے اور سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے ۔تم ٹوٹ کر محبت کرنے والے تھے مگر پلٹ کر اپنی ہی محبت کو روند ڈالنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے والے۔ جس کیفیت میں ہوتے اسی کی انتہاﺅں کو چھوتے ۔ ایسا کیفیت والا آدمی غزل کو بہت بھاتا ہے۔ ہماری روایتی غزل کو.... اور تم تو غزل کے تغزل پر راسخ ایمان رکھتے تھے لہذا تمہار ا فطری تخلیقی اظہار غزل کی گراں قدرروایت کا حصہ ہو کر تمہیں امر کر گیا۔ رہے یہ سب فلسفیانہ مسائل ‘ تو ان کا معاملہ یہ ہے کہ جان من ‘یہ تمہاری تہذیبی روایت کے سبب تمہاری مجبوری بن گئے تھے ۔تم امروہہ سے آئے تھے ایسی تہذیب سے کٹ کر اور بچھڑ کر جو ہند مسلم روایت کی زائیدہ تھی اور اس روایت کا یہ خاصہ بھی تھا کہ مروج علوم میں دسترس حاصل کی جائے۔ بقول تمہارے ’تم نے آنکھیںکھولیں تو اپنے گھر میں صبح سے شام تک شاعری‘ تاریخ‘مذاہب‘عالم‘ علم ہیئت(astronomy)اور فلسفے کا دفترکھلا دیکھااور بحث مباحثے کا ہنگامہ گرم پایا ‘لہذا ان علوم پر اور ان علوم کی بات کرنا اور ان پر فخر کرنا تمہاری سرشت کا حصہ ہوگیا ۔ تو تم فخر سے اور اعتماد سے جن مباحث کو اپنے دیباچے میں چھیڑ آئے ہو میں ان کو اسی ذیل میں رکھتا ہوں۔ اور جس طرح باپ‘دادا‘پردادا کے شاعر اور عالم ہونے پر تمہارے منجھلے بھائی سید محمد تقی شعر کہنے لگے تھے مگرشاعری کو اپنا تخلیقی مسئلہ نہ بنا پائے اور اپنے اصل میدان فلسفہ کی طرف نکل گئے بعینہ تم شاعری کے کوچے میں نکل آئے ہو اور یہی تمہارے تخلیقی وجود کا حصہ ہو گئی ہے۔تاہم تمہارے اٹھائے ہوئے مباحث توجہ کھینچتے ہیں ‘ تمہارے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یہ جو تم ایک تہذیبی آدمی ہونے کے سبب فخر سے بات اٹھاتے ہو اس پر کوئی بات نہیں دھری جاسکتی۔تمہاری وہ نثر ی تحریریںجو تمہیں بے پناہ چاہنے والے اور میرے عزیز دوست مقصود وفا نے تمہیں انشائیہ نگار ثابت کرنے کے لیے مجھے ارسال کی ہے ‘وہ.... معاف کرنا.... تمہارے قد میں کوئی اضافہ نہیں کرتیں ۔ مانتا ہوں کہ یہ اچھی تحریریں ہیں ۔ ایک بہت ہی اچھے شاعرکی اچھی تحریریں .... مگر میں نے بہت جبر کر کے ان کو پڑھا ہے ۔ ایسے میں ‘میں نہیں جانتا‘ ان پر کیا لکھا جا سکتا ہے؟ ۔ ہاں یہ ایسی ضرور ہیں کہ ان سے بعض جملے تمثالیے بن جانے کی قدرت رکھتے ہیں۔کہیں کہیں چمکتے ہوئے اور تیز دھار والے جملے ہیں جو چبھتے ہیں‘ کاٹتے ہیں اورلطف بھی دیتے ہیں ۔اور یہ جو تم نے ہر کہیں منافقت پر خوب خوب ضربات لگائی ہےں توانہوں نے مجھے تمہاری طرف یوں بار بار دیکھنے کو مجبور کیا ہے جیسے مجلس میں بیٹھا شخص منبر پر بیٹھے ذاکر اور عالم کو دیکھتا ہے ۔ لو یوں کرتے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے دانش دانش کھیلتے ہیں ۔ میں تمہاری تحریروں کا یہ پلندہ لے کر ذرا اوپرہوبیٹھتا ہوں....اور تم ذرا یہاں سے بیٹھ کر سنو جہاں سے میں نے منہ اٹھا اٹھا کے تمہیں دیکھا اور سنا ہے تمہیں میری بات پر خود بخود یقین آجائے گا:٭....”میں آزاد بدی کو زر خرید نیکی پر ترجیح دیتا ہوں۔نہ بکا ہوا جھوٹ میرے نزدیک بکے ہوئے سچ سے کہیں قابل قدر ہے“٭....”اقتدار اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی‘ پر ایک بات دیکھی گئی ہے کہ عام طور پر اقتدار کی تائید وہی لوگ کرتی ہیں جو برے ہوتے ہیں۔“٭....”زبان بندی زبانوں کو بڑے غضب ناک لہجے سکھاتی ہے۔“٭....”ہاں انسان اپنے ہجوم میں کہیں گم ہو گیا ہے ۔ ہاں سناٹوں کے اس انبوہ اور تنہائیوں کے اس جلوس میں وہ ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں۔“٭....”انسان کے سوا انسان میں اور کچھ نہ ڈھونڈیں۔“٭....”اے بھائی! سچ یہ ہے کہ ہم سب کی زندگی دھاندلی اور دھوکے کا دھندا ہے۔“٭....”اے خون کی گھونٹ پینے والو‘ تم سب اپنے ہی اوپر بھروسا کرو ....“٭....”اپنا سچ خود بولو‘ پھر دیکھنا کہ یہ جھوٹ بولنے اور بکواس کرنے والے بھی تمہارے دباﺅ میں آکر سچ بولنے لگیں گے۔“٭....”میں کہتا ہوں کہ اندر کی ہلاکت سے باہر کی ہلاکت ہزار گنا بہتر ہی ۔ کسی بھی طرح اپنے آپ سے باہر نکلا چاہیے ۔کسی بھی طرح۔“٭....”بھلا وہ یقین ہی کیا جسے دانش کی فاحشہ اور دلیل کی حرافہ ورغلا سکے ۔“سو‘ اے میرے پیارے جون‘ میں تمہاری اس نثر کے ورغلاوے اور دبدبے میں نہیں آیا ہوں مگر مجھ سے وعدہ لیا گیا تھا کہ تمہاری نثر پر میں لکھوں گا۔ میں نے اس کی یہ صورت نکالی کہ بیشتر گفتگو ”شاید“ کے دیباچہ پر کروں مگر ہوا یہ کہ بات ادھر کی کرتا پھسل کر تمہاری شاعری تک پہنچ جاتی رہی ۔ تمہاری شاعری میں یہ جو قوت اور کشش ہے تمہاری انشائی تحریروں میں کہاں ۔ میں تمہاری ان کتابوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا جن کی فہرس دونوں کتابوں کی پس سر ورق پر موجود ہے ۔ سنا ہے ان میں سے دو پمفلٹ شائع ہوئے تھے اور باقی مسودوں کی صورت اسماعیلی طریقہ والوں کے ہاں محفوظ ہیں ۔ چھپ جانے والے کتابچے” جوہر صیقلی“ اور ”حسن بن صباح“ کہیں دستیاب نہیں اور دوسرے مسودوں تک کسی کی رسائی نہیں ۔ایسے میں تمہارے اس نثری سرمائے پر کیوں کر بات ہو سکتی ہے ۔ کا ش تم نے ”یعنی“ کا دیباچہ ہی خود لکھ دیا ہوتا ۔ یاحضرت شکیل زادہ عفی عنہ ہی کو اتنی ہمت میسر ہوجاتی کہ وہ تمہارے لکھے چار صفحے جوں کے توں نقل فرما دیتے اس طرح” حضرت“ نے زور لگا لگا کر جو ”معروضہ“ لکھا ہے اس مشقت سے وہ بچ جاتے۔تم مقدمہ لکھتے یا تمہارا لکھا سامنے آجاتاتو تمہاری نثر کے حوالے سے کچھ اور لکھنے کی سبیل نکل آتی ۔ اور ہاں ایک اور کاش لگا لینے دو کہ’ تمہارا دوسرا مجموعہ ’ یعنی“ زقند بھر کر تمہارے پہلے مجموعے”شاید“ سے آگے نہیں جا سکا‘ کاش اسے بھی تم خود ہی مرتب کرجاتے.... انتخاب کرکے.... ان ۴۱ مجموعوں کے برابر غزلوں کو سامنے رکھتے ہوئے‘ جن کا تذکرہ ”یعنی“ کے دیباچے میں ہوا ہے۔( اس عرصے میں تیسراشعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے مگر افسوس کہ اس کا اثر دوسرے سے مختلف نہ نکلا ۔ نیا اضافہ ) آخر میں اس نظم کا ذکرکرنا چاہتا ہوں جو تم نے اپنے بیٹے زریون کو بار بار مخاطب کر کے لکھی۔ یہ نظم ایک مفصل تجزیہ چاہتی ہے ‘ میں یہ کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں کہ یہاں صرف اس کا ذکر کر کے یہ بتانا مقصود ہے کہ میں نے اسے بار بار پڑھا ہے پڑھ پڑھ کر رویا ہوں.... رویا ہوں اور ہنسا ہوں:“.... ............میں تم کو یاد کرکے رونے لگتا ہوں تو ہنستا ہوںہمیشہ میں خدا حافظ ‘ہمیشہ میں خدا حافظخدا حافظخدا حافظ(درخت زرد)اجازت دو تمہارے ہی الفاظ دہراتا ہوں ”خداحافظ“تمہیں از حد چاہنے والامحمد حمید شاہد ٭٭٭

ضیاجالندھری

ضیاجالندھری کی شاعری میں وقت اور زندگی کا تناظُر

محمد حمید شاہد


کہتے ہیں دلی میں ایک تقریب کے بعد اپیندر ناتھ اشک نے اپنی نشست سے اٹھ کرکرسی کی پشت پر ہاتھ جمائے اور سب کو مخاطب کرکے کہا: دوستو میں آپ کو اس وقت کویتا سنا سکتا ہوں اور لطیفہ بھی ۔ کہو کیا سناﺅں؟ ۔ راجندر سنگھ بیدی نے سنا ، قہقہہ لگایا، کہا : بھئی تم کویتا سناﺅ ، خود بخود لطیفہ بن جائے گئی ۔ عین ایسے زمانے میں کہ جب شاعری حسیاتی اور معنیاتی سطح پر لطیف ہونے کی بجائے اپنے مضمون میں مضحک ہو کر لطیفہ ہو جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی‘ کبھی پھلجھڑی ہوتی ہے اور کبھی بجھارت، ضیا جالندھری جیسے گہرے شاعر پر بات کرنا بہت اہم ہوگیا ہے ۔ضیاءجالندھری کی تخلیقی شخصیت کو سمجھنے کے دورانئے میں میرا دھیان بار بار اس کی غزل کے کچھ اشعار کی طرف جاتا رہا ہے ۔ یہ جانتے بوجھتے کہ غزل کبھی ضیا کی تخلیقی ترجیح نہیں رہی ۔ مجھے یوں لگا ہے کہ اس نے کئی ایسے شعر کہہ رکھے ہیں جو اس کے تخلیقی بھید پر کھلنے والا دروازہ ہو سکتے ہیں ۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس کی ایک ہی غزل کے دو اشعار:میں ذرہ ہوں پہ خیال و نظر میں لامحدود تو بے کنار، ترا عکس ِ بے کراں میں ہوں =٭=عدم میں رکھ مجھے یا حیطہ ´ وجود میں رکھ یہ”ہے “”نہیں“ کی کشاکش نہ ہو جہاں میں ہوںتویوں ہے کہ جہاں ضیا جالندھری ہے وہاں وقت ایک ڈھنگ سے اور ایک ڈھب پر نہیں چلتا ۔ مجھے موقع ملا ہے کہ ضیا کو توجہ سے اور یکسو ہو کر پڑھوں۔ سچ یہ ہے کہ اسے توجہ کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے نہ اس کیفیت سے لطف اٹھایا جاسکتا جس میں وقت کی کئی سطوح اپنی چھب دکھا کر معدوم ہوتی چلی جاتی ہیں ۔ یہ معدوم ہونا تو میں نے ایک قاری کے نقطہ نظر سے لکھا ہے جب کہ ضیا کے ہاں آنے اورآکر چلے جانے والے لمحات کی اس دھج میں بھی ایک عجب طرح کی نیازمندی ہے میں نے محسوس کیا ہے کہ ضیاایسے شاعروں میں سے نہیں ہے جو جا چکے لمحوں کو دفنا کر ہاتھ کی مٹی جھاڑ دیا کرتے ہیں۔ یہاں تو سب کچھ حاضر باش ہے ‘ جو ہے وہ تو ہے ہی اور جو نہیں ہے وہ بھی موجود اور دسترس میں ہے :تخیل میں ہر طلب ہے تحصیلجو بات کہیں نہیں‘ یہاں ہے ضیا کے تخلیقی مزاج کو سمجھنے کے لیے ایک اور غزل کا شعر درج کرنا چاہوں گا جس نے فوری طور پر میرا دھیان کھینچ لیا ہے : یہ زیست ہے یا خواب کہ ہے اور نہیں ہے اک عکس سرِآب کہ ہے اور نہیں ہےضیا کی غزل میں ہونے اور نہ ہونے کے اس قضیے کو اگر خواب اور حقیقت کی صورت دیکھا جا سکتا ہے تو اس کی نظم میں اس کی کئی اور صورتیں بھی بنتی ہیں ۔ ایسی صورتیں جنہیں وجودی سطح پر بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ممکن ہے کہ اس کا سبب خود آزاد نظم کا مزاج ہو جو اوپر کی پرت پر اتنی تیز دھار ہو جاتی ہے کہ وجود کو چھیلتی اور چھیدتی چلی جاتی ہے ۔ دیکھا جائے تو وجودیت کا فلسفہ ایک لحاظ سے غیریت اور بیگانگی کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔ یہ وہ بے گانگی ہے جوعالمی جنگوں کے بعد انسانی اقدار کی پسپائی کے نتیجے میں اس کا مقدر بنی ۔ بعد میں انسان اپنی حقیقت کو سمجھنے کے لیے اپنی ترکیب اور اپنی عقل پر انحصار کرکے ٹھوکر پرٹھوکریں کھانے لگا ۔ جب سارے معاملات میں خام عقل دخیل ہو گئی تو دیوار کے اس طرف کچھ نہ رہا۔ سارے لباس تارتار کر دیے گئے اور پھر بھی حقیقت ہاتھ نہ آئی تو آدمی بوکھلا گیا۔ اسے یہ شکست قبول نہیں تھی ۔ انسانی وجود کی ناگہانیت اور وحشت باولے کتے کی طرح آدمی پر چڑھ دوڑی تھی۔ وہاں جو آدمی جھیل رہا تھا ۔ وہی اس کی شاعری کے بھیتر میں بھی سما گیا۔ جب جدید نظم ادھر سے ادھر آئی تو ہمارے نظم نگاروں کو بھی ان موضوعات میں کشش محسوس ہونے لگی تھی۔ تاہم انہیں بہت جلد احساس ہوگیا کہ دیوار کے اس طرف تو ایک پوری کائنات موجود ہے جس جانب تمنا کادوسرا قدم بڑھایا جاسکتا ہے ۔ ہمارے ہاں چوں کہ آدمی یوں اکیلا کبھی نہیں ہواتھا ۔ یہاں تہذیبی حوالوں اورانسانی اقدارنے انسان کے وجدان اور ایقان کو سہارا دے رکھا تھا لہذاشکست نہ ماننے اور اپنے باطنی وجود کے مکمل انہدام کو قبول نہ کرنے کے لیے مزاحمت کاانوکھا سلسلہ چل نکلا جو صارفیت کے اس عہدرواں تک چلا آتا ہے ۔ اس مزاحمت کو ضیا کے ہاں”سر شام “ سے ”دم صبح “ تک بطور نمایاں عنصر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔تاہم جاننا ہوگا کہ ضیا کے ہاں مزاحمت کی یہ لہر پرشور نہیں ہے اس نے جابجا نئی زندگی کی یخ بستگی کو دکھا کر‘اس کے مقابلے میں فرد سے فرد کے سماجی سطح پررشتوں سے جڑی ہوئی قدیم زندگی کی شعلگی کو رکھا ہے اور اپنے قاری کے اندر ایک میزان قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس باب میں مجھے آپ کی توجہ ضیا کی پہلی کتاب ”سرشام “ کی ایک نظم ”ابوالہول “ کی طرف چاہئیے ۔ یہ نظم اپنی تیکنیک ‘مواد‘احساس حتی کہ موضوع کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے نہ صرف ن م راشد اور میرا جی کے تخلیقی ضابطوں سے الگ دھج اختیار کرتی ہے ان ترقی پسندوں جیسا چلن بھی نہیںرکھتی جو ایسی نظموں کا عنوان ”انسان عظیم ہے خدایا“ رکھ کر اور اکہری بات کہہ کرآگے چل دیا کرتے ہیں۔ کیا یہ بات اہم اور قابل توجہ نہیں ہے کہ ضیا کی نظم میں تخاطب بھی جمالیاتی لہروں میںجذب ہوگیا ہے۔ تو یوں ہے صاحب کہ یہ نظم انسان کی عظمت کی تلاش سے جڑ نے کے دورانیے میں اس کے وجودی کرب کو ‘کہ جو اپنی قامت اور جسامت میں ابوالہول سے کسی صورت کم نہیں ہے ‘ سے بھی پیوست رہتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ ابوالہول عجائب عالم میں شمار ہوتا ہے اورہم تو یہ بھی گمان کیے بیٹھے ہیں کہ اس کائنات میں آدمی کا وجود بھی ابوالہول کی سی عظمت کی لیے ہوئے ہے۔ ضیا کی نظم کا قضیہ انسان کی عظمت نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جس میں حرکت اور حرارت کو ہونا چاہیئے ۔ یہی سبب ہے کہ وہ نظم کے پہلے حصے میں ابوالہول کو خواب گراں سے جگانے کی کوشش کر رہا ہے۔جہانِ ریگ کے خوابِ گراں سے آج تو جاگہزاروں قافلے آتے رہے، گزرتے رہےتڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگجو تیرے دیدہ ¿ سنگیں سے درد بن کے بہےیہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہےیوں ہی سلگتی رہے ترے دل میں زیست کی آگانسانی تاریخ کا جو حوالہ اس نظم میںضیا کے سامنے ہے اس میں انسان نے بزعم خود اپنی عظمت کو اپنے وجود سے جوڑ رکھا ہے ۔ آدمی جس جھونک میں اپنی اصل سے الگ ہو گیا ہے اس میں اس نشہ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ کئی سانحات انسانی وجودپر گزرے ہیں مگر یہ سنگی ابوالہول ایک خواب مسلسل کا اسیر ہے اور نہیں جانتا کہ وہ زندگی تو موت ہوا کرتی ہے جس میں لگن اور لاگ کا چلن نہ ہو۔ انسانی رشتوں کا یہ روپ خالص مشرق کی دین اور اپنی روایت سے جڑت کی عطا ہے ۔ جس گوں کے آدمی کا تصور ضیا کی نظموں سے متشکل ہوتا ہے اس میں یہ عناصر انسانی وجود کا لازمی جزو ہو گئے ہےں۔ تو یوں ہے کہ ضیا نے زندگی کواس سرمائے کی طرح نہیں دیکھا ہے جسے جمع کرتے کرتے اتنا بڑا ڈھیر بنا لیا جائے کہ دیکھنے میں وہ ابولہول ہو جائے ۔ سرمائے اور اشیا کا بارودی ڈھیر‘ جس کی تہہ میں نئی زندگی کو چمک عطا کرنے والے کارکنوں اور سرمائے کو نمو دیے چلے جانے والے صارفین کی خواہشات کی لاشیں دفن ہوں ۔ کون نہیں جانتا کہ وہ ابوالہول جس کی عظمت دیکھنے والوں کے سینوں پر ہیبت بن کر چڑھ دوڑتی ہے کتنی انسانی لاشوں کے ڈھیر پر تعمیر ہوا تھا۔ ضیا کو اس ہیبت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کہ اس کی نظر تو اس تیرہ شبی پر گڑھی ہوئی ہے جسے بجلیوں کے ناز سہنے چاہیئیں اور اس کا معاملہ تو اس دل سے ہے جس میں زیست کی آگ سلگتی رہتی ہے ۔ ضیا کی اس نظم کے دوسرے حصے میں عافیت والی زندگی کو اس زندگی کے مقابل رکھ کر دیکھا گیا ہے ‘ جس کی گھات میں فنا ہے ۔ دل کا راز کہہ دینے کی تاہنگ میں مبتلا آدمی جن خطرات سے دوچار ہے ابوالہول کے دل سنگین کا وہ چوں کہ قضیہ نہیں بنتا لہذا خود اپنی آگ میں جل اٹھنا بھی یہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ۔زندگی کے کئی روپ ضیا کا موضوع بنتے رہے ہیں۔ عظمت‘ ہمیشگی ‘تحرک‘ لاگ ‘ لگاﺅ‘ بے ثباتی غرض جہاں جہاں سے اس نے زندگی کو دیکھا ہے اس کی بالکل الگ سی تصویر یںبنا کر رکھ دی ہےں ۔ نظم ”بے حسی “ میں زندگی کی لاش ایک سرد تودے کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو ”بہاگ “ میں شور ‘ہنسی‘ باتیں‘ گھومتے پہیئے‘ ہلتے ہاتھ اور پھر خدا حافظ کہتے ہونٹوں کے دورانیئے میں زندگی قضا ہوجاتی ہے ۔ خالی سونی راہیں ‘ سرد ہوا ‘ پڑتی پھوا ر اور خشک ہوتے پتے‘انتظار سے صورت پاتا شدید احساس ِتنہائی جو آج کے آدمی کا مقدر بنا دیا گیا ہے ضیا کی نظموں کا خاص موضوع ہے۔انسانی زندگی کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دینے والی یہ تنہائی اس کی اب تک کی آنے والی آخری کتاب ”دم صبح “ تک پھیلی ہوئی ہے ۔ تاہم یہاںتک پہنچتے پہنچتے ضیا اپنی نظموں میں باقاعدہ اپنا سینہ کھول کر دکھانے اور یہ بتانے بھی لگاہے کہ آ دمی کو ایک ایسی روشنی چاہیے جو تاریکی کے اس خلا کو پاٹ دے ۔ ضیا کی نظر میں یہ روشنی انسان کے وجود کے اندر سے پھوٹ سکتی ہے ۔ بس اسے کرنا یہ ہوگا کہ فرد کو فرد کے قریب لانا ہوگا۔....اس قدر یاد ہے چاہا تھا کہ تجھ تک پہنچوںمرے رستے میں مگردانش شہرِ ہوس حائل تھیدانش شہر ہوستہ بہ تہ سیل کی مانند بڑھی آتی تھیدل گھٹا جاتا تھاکون جانے تو کہاں ہے لیکن میں یہ سینے کا خلا ساتھ لیے پھرتا ہوں کو بہ کو ‘ شہر بہ شہرپوچھتا پھرتا ہوں کیا تم نے کہیںروشنی دیکھی ہے اور اس کا خلا دیکھا ہے۔(نظم :خلا)صاحب مانتا ہوں کہ میں ضیا جالندھری کی نظم کی طرف براہ راست متوجہ نہیں ہوا تھا ۔ یوں نہیں تھا کہ میںنے اس نظمیں دیکھی تک نہ تھا ۔ جرائد میں یہاں وہاں چھپنے والی نظمیں پڑھتا رہا تھا مگر یکسو ہو کر اور ذرا جم کر پڑھنے کی جانب حمید نسیم کی کتاب ”پانچ جدید شاعر“ نے متوجہ کیا۔ پہلے میں ضیا کو ایسا شاعر سمجھتا رہا جو اپنی نظموں میں زندگی کی سلگتی بجھتی تصویریں دکھا کر الگ ہو جاتااوراس سلگنے سے اٹھتے دھوئیں کا ایک احساس چھوڑ جایا کرتاتھا۔ میں اب جومیں اس کی شاعری کے حصار میں ہوں تو یہ بھی تسلیم کرنے لگا ہوں کہ ضیا ان شاعروں میں سے نہیں ہے جو ہر مزاج کے آدمی کی راہ روک کر کھڑے ہو جایاکرتے ہیں۔ اس کی نظم تو اپنی تفہیم کے لیے آدمی کی ایک الگ تہذیب مانگتی ہے ۔ حمید نسیم نے بجا طور پر ضیا کو ان شاعروں میں شمار کیا تھا جن کے کلام کا رنگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا جاتا ہے اور جن کی شاعری نگاہوں کو خیرہ کرنے کے بجائے دل میں احساس و اگہی کی قندیل روشن کرتی ہے ۔ بقول حمید نسیم اس قندیل کی لو نرم و خوشتاب بھی ہے اور دائمی بھی۔تو یوں ہے کہ اب جب کہ میں ”سرشام“ سے ”دم صبح“ تک کی نظمیں،غزلیںاور گیت پڑھ چکا ہوں تو یہ بھی جان چکا ہوں کہ ضیا اپنے عہد کے شاعروں سے بالکل الگ اور نمایاں ہے ‘وہ یوں کہ اس نے زندگی کو ایک تسلسل میںدیکھا ہے ٹکڑوں میں نہیں ۔ جس طرح فکریات کا شعبہ اقبال کو مرغوب تھا بظاہریہ شعبہ ضیا کا نہیں بنتا تاہم پورے اخلاص سے اس کے کلام کا ایک تسلسل میں مطالعہ کرنے والا اس کے اس فکری دھارے سے خود کو الگ نہیں رکھ پاتا جو اس کی نظموں میں احساس کے دھیمے سروں کی صورت بہہ رہاہوتا ہے ۔ ضیا کی فکریات کا سلسلہ ان امیدوں سے جڑا ہوا ہے جو اسے زندگی سے رہیں۔یہ امیدیں گھمبیر نہیں سادہ ہیں مگر لطف یہ ہے کہ اس سادگی میں ایک گھماﺅ اور گھمبیرتا ہے اور طرفگی یہ ہے ان کا برا ٓنا سہل نہیں ہے :کتنا پرکار ہو گیا ہوں ‘کہ تھاواسطہ تیری سادگی سے مجھے اور ....حیات خود ہے دہان ِ نہنگ لا یعنی جو ہے عدم کا مسافر ہے ‘میں چلا کہ میں ہوں اپنے ہونے اور نہ ہونے کو وقت کے جس پیمانے سے ضیا نے ماپا ہے اس میں وقت سے جڑی زندگی کا تصور جامد اور ٹھٹھرا ہوا نہیں بلکہ حرکی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے ہاں بننے والے امیجز متحجر نہیں ہوتے اوران کا معنوی تپاک قاری تک پہنچتا رہتا ہے ۔ وقت اور زندگی کے اس حرکی تصور میں دن اور رات میں بٹے وقت کو مکان اور مکین سے جوڑ کر بھی دیکھا گیا ہے اور اس سے جدا کرکے بھی ۔ تاہم جہاں جہاں زندگی کی بے معنویت ضیا کھلنے لگتی ہے وہاں وہاں وہ وقت کو ایک جبر کی صورت عین انسانی چھاتی کے اوپر نیزے کی انی صورت ٹھہرالیا کرتا ہے۔ ”سر شام“ سے شاعری کو آغاز دینے والے نے وقت کو وہاں سے گرفت میں لینا چاہا ہے جہاں وہ اپنا ایک مرحلہ مکمل کرکے پڑاﺅ ڈالتا ہے۔ دم صبح تک آتے آتے اس کا مکالمہ زندگی کے افق پر تنی طویل اور مسلسل شب سے رہا ہے ۔ تاہم آپ دیکھیں گے کہ ضیا نے بالکل ابتداءہی میں اپنی ایک نظم میں دن بھر کی زندگی کو ”صبح سے شام تک“ کی دھجی میں باندھ کر دکھا دیاتھا ۔ اس نظم میں پہلے صبح کی تصویر کچھ یوں بنتی ہے:مست آنکھوں سے برستا ہے صبوحی کا خمارپھول سے جسم پہ ہے شبنمی زرتار لباس کروٹیں لیتا ہے دل میں اسے چھونے کا خیال آنکھیں ملتے ہوئے جاگ اٹھتے ہیں لاکھوں احساسیہ حسینہ مجھے اکساتی ہوئی آتی ہے ........ ”صبح سے شام تک“زندگی سے محبوبہ کے جمال کی صورت جڑے ہوئے وقت کے اس طلوع میں کمال کی نرمی اوربے پناہ جاذبیت ہے ۔ ضیا کا انسان وقت کے اسی روپ کو عزیز رکھنا چاہتا ہے کہ اس کی طلب میں رہ کر اسے لمحوں کی پازیبوں کے نغمے گونجتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ۔ اسی کے جسم کی لوچ میں لطف کی سیماب موجیں ہیں اور وقت کی یہی تو وہ حسینہ ہے جس کی نقرئی انگلیاں آفاق پہ لہراتی ہیں ۔ تاہم مشرق سے اٹھا یہ وقت جونہی مغرب کی طرف جھک جاتا ہے تو ضیا کے مقابل زندگی کا ایک سلگتا ہوا منظر کھل جاتا ہے : سر جھکائے ہوئے ‘منہ پھیر کے ‘خاموشی سے دور مغرب کے دھندلکوں میں چلی جاتی ہے میرے دل میںہیں سلگتی ہوئی یادیں اس کی انہی یادوں سے میری روح جلی جاتی ہےکتنی تاریکیاں چپ چاپ سرک آئی ہیں .... ”صبح سے شام تک“ یہ سوال ضیا کے لیے بہت اہم ہوگیا ہے کہ آخر انسان وقت کے اس جبر سے کیوں بندھا ہوا ہے ۔ اور جب رات ہی کو آدمی کا مقدر ہونا ہے تو اس پر زندگی کی نرمگیں صبح کا منظر کیوں کھولا گیا ہے ۔ اس پر روشن دوپہریں کیوں مہربان رہتی ہیں اس پر افق سے لالی کیوں برستی ہے اور آخر اس پر رات تن کرکیوں مسلسل ہوجاتی ہے۔ ضیا نے اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں اس پر بہت سوچا ہے اور اپنے تئیں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ:بساطِ ساکت کی وسعتوں میں زمین ‘اہل زمین‘افلاک ‘اہل افلاکاپنی اپنی معینہ ساعتوں میں ایسے گزر رہے ہیں کہ جیسے آنکھوں سے خواب گزریں”ہم“وقت کے تناظرمیں ضیا کا زندگی سے یہ مکالمہ اتنا عظیم اور اتنا پرلطف ہوگیا ہے کہ اس میں چھوٹے بڑے غم اور خوشیاں جھوٹی ‘ بے معنی اور ناپائیدار دکھنے لگی ہیں ۔ وہ جو میں نے اوپر کہہ دیا تھا کہ جن معنوں میں ہم فکریات سے وابستہ لوگوں کا تصور کیا کرتے ہیں ان معنوں میں ضیا فکریات کاآدمی نہیں ہے اور یہاں اس پر یہ اضافہ کرنے کاجواز نکل آیا ہے کہ فکر کو احساس کی سطح پربرتنا بسا اوقات زیاہ خالص اور زیادہ بامعنی ہوجایا کرتا ہے۔ اس خالص پن اور معنویت کو ضیا جیسا شاعر ہی گرفت میں لے سکتا تھا جس کے داخلی مسطر پر کاتب وقت جو کچھ لکھتا ہے اس کی معنویت کا بار امانت اس کے دل پرمنتقل ہوتا رہتا ہے۔ ضیا چوں کہ معروف معنوں میں مفکر نہیں ہے لہذا اس کے ہاں تبدیلی کی خواہش کی شدت کٹاری کی تیز دھار بننے کی بجائے روایت ‘جدت اور واردات کے بہم ہونے سے گہرے احساس کا روپ دھار گئی ہے میں نے دیکھا ہے کہ احساس کے ساتھ اس معاملے کے دوران بھی شاعر کا لاشعور بہت چوکس رہتا ہے۔ بظاہر منظر سامنے کا ہوتا ہے جس میں مختلف علامتیں سیال ہو کر بہ رہی ہوتی ہیں مگر لاشعور اسے انسان کی تہذیبی اور فکری تاریخ سے جوڑتا رہتا ہے۔ ”بے حسی“ ”بھول“ ”آخرکار“ ”غم گسار“” ویرانے“، ”اجالا“، ”بجھی ہوئی آگ“،” دکھاوا“، ”یہ بہار“،” زمستان کی شام“”ساملی“ ”ٹایپسٹ“ غرض کوئی نظم اٹھائیں بظاہر منظر سامنے کا ہے جس میں کہیں تو پتے پتے پر موتی مچل رہے ہیں اور کہیں ایسی سرخوشی ہے جو شگوفوں سے سنبھالے نہیں سنبھلتی تاہم سرشاری ‘ سرمستی اور سرفرازی کے ان مناظر پر محیط ہو جانے والے غم کا تسلسل اور افراط میں ہر دم کچرا بنتی ہوئی زندگی کو کسی نہ کسی بسنتی کی بہر حال ضرورت رہتی ہے ۔ اور اب یوں ہے جیسے ہمارے دلوں میں بھی کچرے کے انبار ہیں ایسے انبار کوئی بھی جن کو اٹھاتا نہیں ۔”کچرا“ایک طرف اگرزندگی کرنے کی للک سے کٹ کر اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی جستجو میںمر چکے ابوالہول جیسے سنگی آدمی کو وقت جس طرح بھرا بھرا کیے جا رہااس کی تصویریں دکھائی گئی ہیں تو دوسری طرف اس کی شاعری کا مرکزی موضوع وہ تاہنگ ہے جس میں بہر حال کسی نہ کسی بسنتی کو آجانا ہوتا ہے ۔ جو آئے اور ہمارے اندر سے اس بظاہر ہیبت اور عظمت والی مگر فی الاصل مردہ ہو چکی زندگی کواٹھاکرلے جائے جو کچرے کا ڈھیر بن چکی ہے ۔ ٭٭٭

علی محمد فرشی

علی محمد فرشی کی طویل نظم ....علینہ : نئی اوڈیسی
محمد حمید شاہد

علی محمد فرشی کی طویل نظم ”علینہ“ جب ٹکڑے ٹکڑے سامنے آ رہی تھی ‘ وقفے وقفے سے اور اپنے لےے مخصوص عنوانات پا کر ‘ تو یوں لگتا تھا یہ عشق مزاج نظمو ںکا ایک سلسلہ سا ہے ‘ الگ الگ اور مکمل۔ تاہم ہر نظم پہلی سے ذرا فاصلے پر۔وہاں شام کا جھٹپٹا ہوتا ...... یہاں ٹیکل دوپہر...... ادھر کل کی سیاہی ...... اور ادھر آج کا چمکتا پُل ...... اور ”علینہ“ یہاں وہاں اپنا مقا م بدلتی نظرآتی ۔ کبھی کبھی یوں لگتا کہ ”علینہ“ آسمانوں کی وسعتوں میں نور کی طرح پھیلی ہوئی ہے اور کبھی یوں کہ جیسے اس سیماب صفت کا قافلہ ہمارے اپنے قرب ہی میں بہتے سوال اور ٹھہر کر تعفن پھیلانے والے لئی کے کنارے پڑا ¶ ڈالے ہوئے ہے۔خدا لگتی کہوں تو ماجرا یوں ہے کہ میں ایک مرحلے پر اس گماں سے بھی گزرا تھا ‘ ہو نہ ہو نظم کی تخلیق کا یہ تجربہ اپنی نہاد میں ٹی ایس ایلیٹ کی ”دی ویسٹ لینڈ“کے زیر اثر ہو رہا ہے۔ نظم کا ایک سمت بہے جانا ‘ خارج کی ٹھوس اور کھردری زندگی کے نقوش ابھارتے ہوئے اور اپنے پہلو میں حسی ‘ جمالیاتی او رمعنوی جہات کے مقدس اسرار کا دھند بھرا منظر بناتے ہوئے۔ جب درمیان میں ہی کہیں فرشی نے نظموں کے اس سلسلے کو ایک مسلسل نظم کے حصے کہنا شروع کیا تو مجھے وہ عنوانات الجھاتے تھے جو اس نے ”ویسٹ لینڈ“ کی طرح نظم کے ہر ٹکڑے پر قائم کر دیئے تھے۔ فرشی کی ”علینہ“ صحرا کے منظر پر کھلی ‘ ایلیٹ کے ”خرابے کی پہلی چند سطروں میں بھی مردہ زمین ‘ بے حس اور سوکھی ہوئی جڑوں کاذکر ہوتا ہے اور اس پتھر کا بھی جس میں پانی کی کوئی صدا نہیں گونجتی۔ فرشی کی نظم میں مذہبی احساس جھلک دینے لگا تو ایلیٹ پھر یاد آ یا۔ "Four Quarters"والا اور ”ویسٹ لینڈ“ والا بھی۔ایک میں بقول مظفر علی سید ‘ خدا سے کچھ پانے کے احساس کے سبب اس کے ہاں انکسار اور submission آ گیا تھا اور دوسری کا معاملہ یہ ہے کہ میں مذہبی احساس کی قوت سے کم از کم جس طرح کی توانائی پانے کی توقع رکھتا ہوں وہ بھی خرابے کی وسعت کا حصہ ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میرا اس طرف دھیان ہی نہ جاتا تھا کہ فرشی اس احساس سے گوئی قوت بھی پا سکتا تھا۔حیف کہ عجلت میں آدمی کیسے کیسے گمان باندھ بیٹھتا ہے۔ بے شک ایسے گمانوں کا کچھ نہ کچھ محرک یا جواز تو ہوتا ہی ہوگا۔ ایسے ہی کہ جیسے ”ویسٹ لینڈ“ کے کچھ حصوں کو الگ کرکے اسے جنسی محبت اور ذہنی و جسمانی نامرادی کی نظم قرار دے ڈالنے والوں کے پاس بھی ایک جواز تھا۔ تاہم تخلیقی سچ تک پہنچنے کا یہ قرینہ نہیں ہے۔ مغالطوں کی عمر لمبی نہیں ہوتی ‘ ٹکڑے کل کاجزو تو ہوتے ہیں ‘ کُل کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ یہی سبب ہے کہ ”علینہ“ نے میرے ہاں جو ٹکڑوں کی صورت تصویر بنائی تھی ‘ اس نظم کی تکمیل کے ساتھ ہی وہ تحلیل ہو گئی۔ اب ایک اجلا ‘ روشن اور ماورائی پیکر میرے سامنے ہے۔ ”علینہ“ کا یہ مابعد الطبیعاتی کردار پوری نظم میں کہیں بھی اپنے عالی منصب سے سبکدوش نہیں ہوتا۔آخر ”علینہ“ ہی کیوں؟ سلمیٰ ‘ سلیمہ ‘ زرینہ اور سفینہ کیوں نہیں؟ جب تک ”علینہ“ مکمل صورت میں سامنے نہ آئی تھی مجھے اس سوال میں کوئی عیب محسوس نہ ہوتا تھا کہ سبع معلقہ کے ایک شاعر امراءاُلقیس نے اپنے قصیدے کو عنیزہ کے لقب سے معروف اپنی عم زاد اورمحبوبہ ”فاطمہ“کو ”افاطم“ کے تخاطب سے شروع کرتے ہوئے کہا تھا۔ ”اے فاطمہ کج ادائیوں سے حذر کر ‘ اگر تو نے مجھ سے جدا ہونے کا قصد کر ہی لیا ہے تو اس کے لیے کوئی دلکش انداز اپنا“۔ یہاں ”فاطمہ“ نہ ہوتی تو امراءالقیس کو کوئی بھی اور عورت مل سکتی تھی ‘ او راسے تو ملی بھی تھیں ‘ تبھی تو اس کے قصیدے میں بدن کستوری سے خوشبو کی لپٹیں اٹھانے والی ”ام الحویرث“ اور اس جیسی حسینہ قبیلہ طے کی شاخ بنی۔ ینہان والی ”ام الرباب“ در آئی تھیں۔ اختر شیرانی کی ”سلمیٰ“ ہو یا ن م راشد کی ”جہاں زاد‘ اور مصطفی زیدی کی ”شہناز“ سب ہی کا معاملہ ایک سا ہے۔ میونخ سے ”شالا ط“ کے بجائے کوئی اور آ جاتی تو اس کی کیا ضمانت تھی کہ اس پر مجید امجد کی نظم اور اس کے دل کے دروازے بند رہتے۔ عورتوں کے نام لے لے کر نظمیں لکھنا اور نسوانی ناموں کو عنوان بنا لینا ہماری شعری روایت میں ایک عمومی سا رویہ رہا ہے۔ فرشی اگر اس روایت کو نبھاتا تو اپنی پسند اور سہولت کا کوئی بھی نام استعمال کر سکتا تھا۔ مگر اب کہ جب میں اس نظم سے پوری طرح گزر چکا ہوں یہ سوال میرے لیے سرے سے ہی لا یعنی ،غیر متعلق او ربے ہودہ ہو گیاہے۔ نظم اس سوال سے کہیں اوپر اٹھ کر بہت بڑے سوالات اٹھانے لگی ہے اور ”علینہ“ کا اسم ان سوالات کے تقدس اور گمبھیرتاکے ساتھ جڑا ہوا ہے۔میں نے ”علینہ“ کو سمجھنے کے لئے اسے شاعر کے نام سے جوڑا تو یوں لگا جیسے ”علی“ کی تکمیلی صورت ”علینہ“ ہو گئی ہے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو علی فرشِ زمیں میں آدھا دھنسا ”علی“ اور ”نہ“ کو جوڑنے کے جتن کرتا دِکھتا ہے اور اوپر فلک کے کناروں سے ”علینہ “ کا وجود چھلک رہا ہے۔ عربی قواعد کے مطابق کسی اسم کے آخر میں ”ہ“ کا ورود ہو تو وہ مونث قرار پاتا ہے۔ اب اسم ذات ”اﷲ“ پر غور کریں کہ اس کے آخر میں بھی تو ”ہ“ ہے۔ تاہم اس ذاتِ اولیٰ کا جلال ایسا باکمال ہے کہ تانیث کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ علی محمد فرشی نے جزو ہو کر کل کی جس شناخت سے تخلیقی رشتہ جوڑا ہے وہ اپنے کامل وجود میں ہیبت کی وہ لپک نہیں رکھتا جو دلوں تک بھڑکتے شعلوں کی آنچ پہنچاتا ہے۔ اس مقدس او رماورائی کردار میں فقط نرمگیں جمال ہی جمال ہے۔ یوں اس کے کومل نام اور روشن بدن پر اپنے لےے پکارے گئے اسمِ ذات کا تانیثی پیرہن سج جاتا ہے۔دیکھئے ......نام کے اس عقدے کو ایک اور طرح سے بھی سلجھایا جا سکتا ہے۔ وہ یوں کہ ”علینہ“ کے حروف کو وہ اعداد دے دیجئے جو علم الاعداد میں ان کے نام لکھے جا چکے ہیں۔ اس اسم کا ایک مفرد عدد حاصل ہوگا ”۳“۔ یہی مفرد عدد ”اﷲ“ کا بھی ہے۔ کیا یہ سارے اشارے ”علینہ“ کے مابعد الطبیعاتی وجود پر دال نہیں ہیں؟ساقی فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں "The Human Condition" جیسی ”ہولناک کتاب“سے اپنی یادداشت کے بل بوتے پر حوالہ نقل کرتے ہوئے آدمی کو چار سطحوں پر مجاہدے سے دوچار دکھایا تھا۔ پہلی سطح وہ ہے جسے Labour کہتے ہیں۔ زندگی قائم رکھنے اور آسانیوں کے حصول کے لئے محنت۔ دوسری سطح Makingکہلائی۔ پہلی میں اگر روٹی کی طلب میں درانتی چلانے والا آتا ہے تو دوسری میں دستکار اور کاریگر۔ تیسری سطح Activityکی ہے ‘ وہی جو سیاست دانوں ‘ فوجیوں اور سائنس دانوں کے حصے میں آتی ہے ‘ جبکہ مجاہدے کی ارفع سطح وہ ہے جو Contemplationکہلاتی ہے ‘ فلسفیوں ‘ صوفیوں اور تخلیق کاروں کا وصف۔ فرشی کی ”علینہ“ اسی مراقبے میں در آنے والے ارفع سچ کے بھیدوں بھرے پانیوں پر منعکس ہے۔ پانیو ںکا وجود بے کنار وقت کی وسعتوں میں پھیلتا جا رہا ہے ‘ یوں کہ وقت کے معلوم کنگرے اس میں ڈوب گئے ہیں۔ اس طرح دیکھیں تو ”علینہ“ کا تخلیقی تجربہ نہ تو محض Poetic Labourہے ‘ نہ فقط Poem making کی کاریگری اور نہ ہی سماجی سطح پر شاعرانہ سرگرمی کہ یہ اس علاقے کی کہانی ہے جس میں سچے تخلیق کار اپنے زندہ لفظوں او رگہرے شعور کے سا تھ ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ اسی گہرے او رہمہ جہت شعور نے اسے زمان و مکان کی نئی معنویت کے مقابل کر دیا ہے۔چوبیس اجزاء(دیباچہ +۳۲ مناظر) اور ۹۹۹ مصرعوں پر مشتمل یہ طویل نظم اپنے patternکے اعتبار سے ”علینہ“ سے مخاطبہ ہے ‘ جزو کا کُل سے تخاطب ۔ ”علینہ“ نظم میں یوں آئی ہے کہ اس کی آنکھوں میں آسمانوں کی وسعت سما گئی ہے۔ اس کی برجیوں تلے زمانہ دست بستہ کھڑا ہے۔ سب اس کے نقرئی اسم کا ورد کرتے ہیں۔ اس کی تجلی بھری لاٹ کو دیکھنے کے لئے زمانے زمین بوس ہیں اور جھکی ہوئی کائناتوں کی گردشیں تھم تھم گئی ہیں۔ تاہم اس نظم کے چوتھے منظر میں وہ مقام بھی آتاہے کہ عسکری کی بات یاد آتی ہے......آگے کیسے بڑھوں کہ پہلے عسکری کی بات بتانی ہے اور وہ یوں کہ ایک مرتبہ اس نے مولانا روم کا وہ شعر پڑھا تھا جو”من زتن عریاں......“سے شروع ہوتا ہے اور ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا تھا کہ”کون عریاں ہوا......اور”......او از خیال“میں خدا جو کپڑے پہنے ہوئے تھا،وہ خیال کس کا تھا۔جواب دیا گیا ”انسان کا“۔محمد حسن عسکری نے ترت کہا تھا”انسان ہی کا ہوا نا“تو صاحب ،یہی paradoxتو آدمی کے اندر ہے،لباس بھی دیتاہے اور نہاں بھی دیکھتا ہے......اور ہاں بات چوتھے منظر کی ہو رہی تھی اور عسکری یوں یاد آیا تھا کہ اس منظر میں ایسا مرحلہ آگیا تھا جب ازل اور ابد کے کہیں وسط میں چند لمحوں کے لئے چمکنے والے نے”علینہ“کے سارے حجروں کو منور کر دیا تھا۔بائیسویںمنظر کی ایک منزل کی بھی یہی منزلت ہے کہ اس میں ایک موہوم امید الوہی غرفوں میں سوئی ہوئی نیند بھری ساعتوں کو خوابوں سے بیدار ہونے کی خوشبو عطا کر دیتی ہے۔ ”علینہ“کا مابعد اطبیعیاتی وجود اور”میں“کا یہی زمینی کردار نظم کے شروع سے آخر تک ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔”میں“ایک دو مقامات پر”علیزے“ہو گیا ہے۔شاعر کے اپنے نام کے صوتی منبع سے پھوٹنے والے یہ دونوں اسماءنظم کے کینوس کو کائنات کی سی وسعت عطا کر دیتے ہیں۔شاعر کی اپنی ذات”علینہ“کے ماورائی کردار سے امید کے ایک مضبوط رشتے میں گندھی ہوئی ہے۔اس کے دل سے”علینہ“کی کائناتوں کے اجڑے ہوئے قافلے گزرتے ہیں۔یہ صلصال کے سلسلوں سے جڑا ہوا ہے اور گرد میںڈوبے ہوئے اس زمانے جیسا ہے جسے زرد زروں کی آندھیوں سے باہر نکلنے کا اسم بھول چکا ہے۔جہاں جہاں ”علیزے“آیا ہے وہ”میں“کے کردار کا شوخ مظہربن گیا ہے۔شوخی کی دھج دیکھیئے کے وہ”علینہ“کی الماری سے خوبصورت دنوں کا راز چرا لیتا ہے۔نظم کے کردار امیجزاور سمبلز میں معجزاتی نشانیاں بن کر وجود پذیر ہوتے ہیں۔یہ نشانیاں زندگی کے نامعلوم علاقوں کواجالے چلی جاتی ہیں ۔کہیں تو وقت کا محدود تصور‘ لامحدود تصور سے پسپا ہوتاہے اور کہیں مکان کی قید سے زمانہ آزاد ہو جاتا ہے۔کہیں ہونے کا کرب نہ ہونے کی معرفت سے مصافحہ کرتا ہے اور کہیں دنی دنیا سے اوپر اٹھ کر اپنے وجود کو دائمی بقا کے ازلی نو ر سے اجالنے کی تمنا سارے زمانوں پر محیط ہو جاتی ہے ۔”علینہ“میں کچھ اور کردار بھی وقفے وقفے سے طلوع ہوتے ہیں اور ایک نئی معنویت کا استعارہ بن کر مجموعی منظر نامے کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ان ہی میں سے ایک سدھا رتھ ہے،وہی جو زمینی کشش سے نکل کر زمانے کے زینے روشن ہو گیا تھا۔ایک اور کردار یشودھا کا بھی ہے جو حقیقی اور زمینی ہے۔تاہم اس کی راتوں میں پھیلی سرد تنہائی کو شاعر نے یوں اجال دیا ہے کہ سدھا رتھ کی ساری ریاضت اس کے درد سینے میں ڈوب گئی ہے۔اس نظم میں ابن مریم کی پوروں سے بیمار جسموں کا دکھ محسوس کرنے والی نرسیں بھی ہیں اور وہ دق زدہ لڑکیاں بھی جن کے لئے مائرن کی ننھی سی ٹکیا ایسی گلابی پری بن جاتی ہے جو زندگی کی سانسوں سے چھاتیوں کو لبالب کر دیتی ہے۔خمینی خمینی کی تکرار کرنے والی خلقت ہو یا اپنی بغلوں میں اسناد کی ردی دبائے منتظر نوجوان اور پنشن کی کاپیوں کے خالی خانوں میں خواہشوں کا ماہانہ اندراج کرانے والی بیوائیں،سبھی ایک لامتنا ہی دکھ کی عجیب کہانی سناتے ہےں،ایسا دکھ جو اس محدود زمان و مکاں کی آلائش سے جڑے رہنے کے سبب اس دھرتی کے باسیوں کا مقدر ہوگیاہے۔اسی محدود انسانی فکری کارکردگی کی وجہ سے مشینی دماغوں سے روندنے کچلنے والے روبوٹ نکل آئے ہےں۔خلائی شٹل اور اڑن طشتریوں سے ایٹمی روشنیوں کے جھماکے میں سیاہ موت برسنے لگی ہے۔آدم کی دائمی روایت سے منسلک ”علیزے“ نے جو روشن دنوں کے راز”علینہ“کی الماری سے چرائے تھے اسے مغربی ساحروں نے تباہ کن ایٹمی موت سے بدل دیا ہے۔ان بدوﺅں کو جن کے پاﺅں تلے تیل کی نہریں رواں ہےں بے خبر ہےں کہ بازار میں زندگی کس بھاﺅ بک رہی ہے۔ڈالروں کی بانجھ توانائی نے ایک مفلوج اور فاقہ زدہ عہدکو جنم دے دیا ہے ،اور یہ ایسا عہد ہے جس میں نالیوں کے کناروں پر گن گن کر جیون کے قطرے بہانے والے ایک نئے سورج کی تمنا بھی رکھتے ہےں۔یہ تمنا ”علینہ“کے روشن وجود سے جڑی ہوئی ہے۔پکارنے والے ”علینہ،علینہ“.....،”علینا،علینا“...... ”علی نہ ،علی نہ“ اور ایلی ،ایلی“کی صدا لگاتے ہوئے اپنی تصدیق کے گنجلکے چیستان سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہےں۔اسی تلاش پر یہ نظم اپنی تکمیلیت کو چھولیتی ہے،یوں کہ امیجزاور سمبلز کا ایک روشن سلسلہ لطف و آگہی اور سرشاری سے ہمکنارکر دیتا ہے۔مرمریں برجیاں ‘ نقرئی اسم ،سرخ بوسے، سرداقرار ‘ درد کی نیلگوں راکھ ‘ دیدار کی شربتی دھوپ ‘شش دری ممٹیاں ‘ سونے چاندی کی دو روٹیاں‘بھوک کے بگولے ‘زیر آب تیرتی مرگ مچھلیاں ‘گردسے گل میں تبدیل ہونے کی تمنا ‘ گھنی گاڑھی سیاہی،کم خواب گھاٹیاں ،لفظوں کی صندل خوشبو ،سوت کی انٹی میں تلنا،دردیلے دن،الو ہی الاﺅ ،گلابی تجلی،نیندوں بھری ساعتیں ........ میں لکھتا جارہا ہوں اور فرشی کی نئی بوطیقا”علینہ“کے بھید مجھ پر کھولتی چلی جاتی ہے۔نطشے کے بقول ہر شخص اپنے اسلوب سے پہچانا جاتا ہے ۔فرشی نے اپنے اسلوب کی اساس دانشورانہ جدوجہد کے بجائے داخلی تجربے سے حقیقت کی تخلیق اور توسیع پر رکھ کر خود کودوسروں سے مختلف کر لیا ہے۔پھر وقت کے حوالے سے اس نے ایک بھر پور تصور کو”علینہ“کے سارے حصوں میں یوں اجال دیا ہے کہ ہر منظر آگے آنے والے منظر کی چوکھٹ بن جاتاہے۔رولومے نے ایک دلچسپ بات کہی تھی،دلچسپ بھی اور عجیب بھی۔اس کا کہنا تھا کہ ”ایک کتے کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ایک اور مہینہ یا ایک اور سال بیت گیا لیکن ایک انسان تو یہ سوچ کر گھبرا جاتا ہے۔“فرشی کے یہاں یہی تشویش ایک خوبصورت تخلیق کا محرک بن گئی ہے،کچھ اس طرح کہ وقت نے بھی نئی معنویت کے گلابی بوسے لے لئے ہےں۔مجموعی طور پر”علینہ“کا نور جس نقطے پر مرتکزہورہا ہے وہ انسانی وجود ہے،وہی جسے سقراط نے عظیم بلندیوں کا گہوارہ قرار دیا تھا۔کیرکے گارڈنے سقراط کے کہے سے یہ بنیادی نکتہ نکالا تھا کہ ”ساری کائنات اسی وجود انسانی پر مرتکز ہے۔اس کا عرفان حقیقت اولیٰ کا عرفان ہے۔“ یوں”علینہ“اور ”علیزے“ کے دونوں کردار ان دو شفاف آئینوں جیسے دکھنے لگے ہےں جو عکس در عکس ایک دوسر ے کو زنجیرکئے ہوئے ہےں۔یہی وہ اسباب ہےں جن کے برتے پر مجھے اصرار ہے کہ ”علینہ“کواردو کی معدودے چند باقی رہ جانے والی نظموں میں شمار کیا جائے گا۔آپ نے دیکھا کہ اس میں فرشی کی قوت متخیلہ کوندے کی طرح ایک ہی ساعت میں کئی زمینوں اور کئی زمانوں پر سے لپک کر ابدیت کے کناروں کو چھولیتی ہے۔وہ اپنے امیجز کی تعمیر کے لئے اس بے کنار زمانی و مکانی علاقے سے غیر مانوس مماثلتیں اور انوکھی تضادات اور پھر ان کے جوازبرآمد کرکے نظم کے کینوس پر یوں بکھیر دیتا ہے کہ ایک مربوط بصری اور معنوی نظام ترتیب پا جاتا ہے ۔اس طرح فن پارے کے بطن سے ایسا طلسماتی ماحول وجود پذیر ہوتا ہے جس میں زمان ومکاں ،قدیم و جدید،اساطیر و سائنس ،فلسفہ و تصوف،ارتقاءو فنا ‘ مذہب وتعقل ،مادہ وروح،موت اور محبت سب ایک دوسرے سے مربوط ہو کر براہ راست ترسیل کے بجائے امیجز کے ذریعے نئی بوطیقا تشکیل دے دیتے ہےں۔یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں نہ تو معنی کی مطلقیت اور قطعیت ہوتی ہے اور نہ شاعرانہ تصنع ۔یوں وہ اپنی نظم کے لئے ایسا نظام و ضع کر لیتا ہے جس کے ذریعے انسان اور فطرت کے نامیاتی تعلق سے پیدا ہونے والے معلوم تضادات کے کنگروں سے وراءمنطقے دریافت ہونے لگتے ہےں اور نظم دانشورانہ ادراک اور ارادی شعور سے اگلی منازل کی اوڈیسی بن جاتی ہے۔
****

حسن عابدی

جو حرف لکھے دور سے روشن نظر آئے
محمد حمید شاہد
مجھے اعتراف کر لینے دیجئے کہ میں حسن عابدی کی طرف اس کی نظم ” کوئی چیز بے کار نہیں “ سے پہلے پوری طرح متوجہ نہ ہو پا یا تھا۔ میں نے یہ نظم آئندہ کراچی کی ۰۰۰۲ءمیں چھپنے والی ایک اشاعت میں پڑھی تھی ۔ بظاہر نظم ایک کباڑی کے دن بھر کے معمولات کے گرد گھومتی تھی مگر بیچ بیچ میں کوسوں کے اندر قدرے غیر متعلق بات کی طرف اشارہ کرکے اسے قومی سطح پر مجرمانہ بے عملی سے جوڑ دیا گیا تھا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی تھی ‘ اس میں کاٹھ کباڑ سے جو امیجز بنائے گئے تھے وہ حیرت انگیز طور پر اتنے شفاف ہو گئے تھے کہ ان میں سے معنی کے ایک سے زائد دھارے پھوٹ بہے تھے ۔ اور جب میں نظم کے آخر میں پہنچا تھا‘ وہاں جہاں اس کباڑی کے گول مٹول بچے کو تختے والی اس ریڑھی پر بیٹھا دکھایا گیا تھا جس پر دن بھر گلی گلی گھوم کر اکٹھی کی جانے والی ناکارہ چیزیں دھری ہوئی تھیں تو میرا دوران خون بڑھ گیا تھا ۔ نظم یہاں پر رکی نہیں تھی کہ آگے چل کر کاٹھ کباڑ کو ایک بڑے کباڑی نے خریدنا تھا .... کاٹھ کباڑ کو ‘ قومی ردی کو اور چھوٹے کباڑی کے گول مٹول بچے کو بھی‘ کہ اسی سے مال بنایا اور کمایا جانا تھا ۔ یہ نظم میرے اندر دھرنا مار کر بیٹھ گئی۔ گہرے درد کی طرح ....‘ نہیں شاید ایک طیش کی طرح جو آپ کے دوران خون کو معمول پر نہیں آنے دیتا ‘ اسی رات میں نے خواب میں ایک کباڑی کو دیکھا تھا جو دروازوں پر دستک دے دے کر صدائیں لگاتا پھرتا تھا :”ٹوٹا پھوٹا مال نکالوبی بی خالی ہاتھ نہ ٹالولوہا لکڑی ‘خالی ڈبے ‘ ناکارہ فرنیچرکرنا کیا ہے گھر میں رکھ کر....“میں نے نظر بھر کر اس کی تختے والی گاڑی کو دیکھا تھا ٹوٹی پھوٹی میز اور کرسی کے ساتھ بنیادی دفعات سے خالی آئین ‘مالی منصوبے ‘ سرکاری اعلانات اور پتہ نہیں کیا کچھ ردی کی صورت بکھرا پڑا تھا ۔ اسی کاٹھ کباڑ اور ردی کے پاس ہی ایک معصوم بچہ بھی بیٹھا ہوا تھا جس کے چہرے کی معصومیت کواس ناکارہ اسباب سے اٹھنے والی دھول نے دھندلا دیا تھا۔یوں کسی فن پارے کا اعصاب پر سوار ہو جانا میرے لیے بہت غیر معمولی تھا ۔ پھر یوں ہوا کہ اس غیر معمولی فن کار کی نظمیں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے لگااور لطف یہ ہے کہ ہر بار کوئی نہ کوئی پہلو مجھے دلکش دکھائی دے جاتا تھا۔ ان نظموں سے میں نے جس حسن عابدی کے خال و خد بنائے وہ اس بزرگ ترقی پسند صحافی کے طور پر معروف حسن عابدی سے قطعا مختلف تھے جس کا ذکر گاہے گاہے میرے سننے میں آتا رہا تھا۔ ان نظموں میں جدید تر حسیات سے پوری تخلیقی سچائی کے ساتھ وابستہ ایسے شخص کا ہیولا بنتا تھا جس نے گذشتہ ربع صدی کے بدلے ہوئے تخلیقی لحن کو شعار کیا تھااور یہی میری چوک تھی ۔ جدید نظم پر مضمون لکھتے ہوئے اسی چوک نے مجھے ان بھائی لوگوں کی طرح منہ کے بل گرایا جو تخلیق کو مصنف سے بالکل الگ کرکے سمجھنے کے جتن کرتے ہیں اور آپ جانتے ہی ہیں کہ مصنف کو مردہ سمجھنے والوں کی تنقیدی تھیوریوں کے لاشے تھوڑے ہی عرصے میںتعفن چھوڑنے لگے ہیں۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ‘ مجھے تو یہ بتانا ہے کوئی تین سال پہلے جب میں نے ایک مضمون میں نئی نظم کے کچھ اہم نام نشان زد کئے تھے تو حسن عابدی کو اسی تناظر میںاس نئی نسل میں شمار کر لیا تھا جس نے گزشتہ ربع صدی میں شناخت پائی تھی۔اس مضمون کے چھپنے پر آصف فرخی نے بجا طور پر میری گرفت کی تھی مگر ساتھ ہی ساتھ چندایسے نظم نگاروں کا میرے مضمون میں ذکر نہ آنے پر برہمی کا اظہار بھی کردیا تھا‘ جو مجھے قطعا متاثر نہ کر پائے تھے ۔ لہذا آصف فرخی کے خط کی جذباتی عبارت بہت جلد ذہن سے محو ہو گئی حتی کہ ۳۰۰۲ کی وہ شام آگئی جب میرے لیے کراچی میں کچھ احباب جمع ہوئے جن میں حسن عابدی بھی تھا ۔ بوٹا قد‘ اکہرا جسم ‘ سفید بڑھے ہوئے بال جنہیں عدم دلچسپی سے کنگھی کیا گیا تھا ‘ موٹے فریم والی عینک ‘ وہ ملنے کے لیے اٹھ کھڑاہوا تھا مگر یوں کہ نگاہ پوری طرح اٹھی ہوئی نہیں تھی اس کے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ تھی جو مزاج کی سنجیدگی نے دبا رکھی تھی۔ تعارف ہو چکا تو میں کھسیانا ہو رہا تھا مجھے آصف فرخی والی گرفت یاد آنے لگی ۔ واقعی مجھ سے بہت خطا ہوئی تھی اور جب تک میں نے حسن عابدی سے اپنی خطا کی معافی نہیں مانگ لی میں بات آگے بڑھانے کے قابل نہیں ہوا.... مگر یوں تھا کہ میرے معذرت چاہنے پر وہ اور بھی زمین کے قریب ہو گیا تھا اس پیڑ کی ڈالیوں کی طرح جو رس بھرے پھلوں سے لد کر جھک جاتی ہیں ۔باقی کی ملاقاتیں بھی گنی چنی ہیں مگر اس عرصے کا فیضان یہ ہے کہ حسن عابدی نے مجھے اس وقت تک شائع ہو چکے اپنے دونوں شعری مجموعے عطا کرکے موقع فراہم کر دیا تھا کہ میں اس کی شاعری دل جمعی سے پڑھ سکوں۔ اس کا تیسرا مجموعہ کچھ عرصہ پہلے آصف فرخی لیتے آیا ۔جن کے ہاں لکھنا مشغلہ نہیں ہوتا زندگی اور موت جیسا مسئلہ ہو جاتا ہے وہ لاکھ فاصلے پر ہوں قریب آجاتے ہیں تو یوں ہوا کہ ہم بہت قریب ہوگئے تھے۔اب میں اس حسن عابدی کو جان گیا تھا جس کی ساری زندگی مشقت سے عبارت تھی مگر جس کا دل انسان کی محبت میں کناروں تک چھلک رہا تھا جو محبت کو دل کی دین‘ اور محبت ہی کوہرذی نفس پر فرض اور آدمی کا آدمی پر قرض سمجھتا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ اس سانحے پررنجیدہ بھی تھا کہ شہر کی رسمیں جدا ہو گئی ہیں:” یہاں کے آب و خاک و باد میں انکار کی خو ہےشجر آغوش وا کرتے ہیں اور سائے نہیں ملتےشناسائی کی خوشبو پر دریچے بند ہوتے ہیںدعائیں در بدر پھرتی ہیں ماں جائے نہیں ملتے....“محبت/حسن عابدیعین ایسے عالم میں کہ جب بھونچال کی تباہ کاریوں کے بعد بچوں کی چیخوں کے سرخ پھول فضا کی چادر پر ہر کہیں نظر آتے ہیں مجھے اِس نامہربان منظرنامے کے طلسم سے نکلنے کے لیے وہ وظیفہ یاد آتا ہے جو حسن عابدی نے اپنی نظم ”آنسو“ میں بتایا تھا:”بچوں کی آوازیںآوازوں کے پھولاور پھولوں کے ہارکچھ بھی پاس نہ آئےتب یہ سوچوروح کی گرد آلود قبا میں‘چاک بہت ہیںکب سے دھوئے نہیں تھےکب سے روئے نہیں تھےتنہا بیٹھو ‘بیٹھ کے رو لودھول آنکھوں سے دھل جائے گیدنیا نئی نظر آئے گی“آنسو/حسن عابدیجس روز حسن عابدی نے اپنی پہلی دو کتابیں ”نوشت نے“ اور جریدہ“ دی تھی تو یوں نہیں تھا کہ کتابیں لاکر چھاتی پھلا ئی اور دھڑ سے مجھے تھما دی تھی ۔ بلکہ یوں تھا کہ ہم مبین مرزا کے ہاں طویل نشست کے بعد بہت دیر ساتھ ساتھ رہے ‘ وہ بولتا کم اور سنتا زیادہ تھا۔ اس روز تو وہ بہت کم بول رہا تھا۔ اتنا کم کہ مجھے خدشہ ہونے لگا‘ کوئی بات ضرور ہے جو اسے کہنا ہے ۔ اس خدشے نے مجھے بھی چپ لگادی تھی۔ مجھے پوری طرح اپنی جانب متوجہ پاکر حسن عابدی نے اپنی لپیٹی ہوئی کتابیں میرے سامنے کیں اور کہا کہ قصور اُس کا اپنا تھا کہ ُاس کی کتابیں بہت کم لوگوں تک پہنچ پائی تھیں۔ میں نے اُن کتابوں کو تھام لیا اور پھر یوں ہوا کہ مجھے حسن عابدی کی محبت نے تھام لیا ‘ اُس کے خلوص سے بھرے ہوئے لفظوں نے ‘ اُس کے لہجے کے ٹھہراﺅ نے اور اُس گہرے احساس نے جو اُس کی شاعری کا خاص وصف ہو گیا تھا۔۵۹۹۱ءتک شاعر حسن عابدی ‘ صحافی حسن عابدی کے نرغے میں تھا۔ تاہم ’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ‘ والا کرشمہ ہوا اورجنوری ۵۹۹۱ میں اس کی پہلا شعری مجموعہ ”نوشت نے “شائع ہوگیا۔ اس مجموعے کے آغاز میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ :” میں نے صحافت کی‘ کالم نگاری کی‘ اخبار میں نوکری کی.... بے روزگاری کاٹی ....مشقت سے منہ نہ موڑا‘ دل شکستہ تو ہوا مایوس نہیں ہوا ۔اب سوچتا ہوں تو نادم ہوتا ہوں کہ میں نے شاعری کو اپنا اسلوب زیست کیوں نہ بنایا“گزارش‘نوشت نے/حسن عابدییہ ندامت ایسی تھی کہ اس نے زندگی کا اسلوب بدل لیا ۔ اب صحافت اس کی زندگی میں اس مقام پر آگئی تھی جہاں اسے ہونا چاہیے تھا ۔ یہی سبب ہے ۸۹۹۱ میں اس کا دوسرا مجموعہ ”جریدہ“ شائع ہو گیا جب کہ کچھ ہی عرصہ پہلے اس کا تیسرا مجموعہ ”فرار ہونا حروف کا بھی منظر عام پر آچکا ہے ۔ لیکن میں بات کر رہا تھا اس زمانے کی جب وہ صرف صحافی ہو کر رہ گیا تھا‘ ایسا صحافی جو ترقی پسندتحریک کا انڈر گراﺅنڈ ورکر تھا اور انہیں کے تقاضوں کے عین مطابق شاعری کر لیا کرتا تھا ۔ تب وہ اس تحریک کا اتنا اہم ورکر تھا کہ ایک وقت کی حکومت نے اسے راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہونے والوں کی فہرست میں رکھا ۔ یہ گرفتار ہوا‘ سی کلاس کی صعوبتں برداشت کیں مگر اپنی روش ترک نہ کی حتی کہ وہ زمانہ آلگتا ہے جب ترقی پسندی دوا کے طور پر کان میں ڈالنے کو بھی باقی نہیں بچتی اور بچے کھچے اکثر انقلابی اتنے روشن خیال اور سیانے ہو گئے ہیں کہ اس روشن خیالی کی جھونک میں سب سے بڑے سامراج اور اس کے مقامی ہرکاروںکے مکروہ چہروں پر بوسے دیتے ہوئے انہیں ذرا بھی لاج نہیں آتی ۔ فیض کا وہ شعر یاد کیجئے جس میں ‘ پرورش لوح و قلم ‘کی بات کی گئی تھی اور بدلے ہوئے تناظر میں حسن عابدی کا ایک شعر بھی سن لیجئے :عابدی پرورش جاں کا خیال آتا ہےان دنوں پرورش لوح و قلم سے پہلے سو عین ایسے زمانے میں جب عالمی سرمایہ کاری سب کچھ بہائے چلی جاتی ہے ۔ نظریاتی وابستگیوں معزز وظیفہ بے وقت کا راگ بنا دیا گیا ہے ‘ ہم نے دیکھا کہ حسن عابدی سب سے الگ دھج سے کھڑا مسلسل سامراج کوللکارتا رہا ‘ بغیر کسی خوف کے ‘ پورے خلوص اور پورے تخلیقی رچاﺅ کے ساتھ:”ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گےعلی بابا کے سونے کے خریطے ‘ خیمہ و خرگاہ سارے لٹ چکے ہوں گےجہاں عشوہ طراز و حیلہ گر مرجینا رہتی تھیوہاں اک اور ہی دنیا کے نوسر باز بیٹھے ہیںیہاں مٹی میں جادو ہے‘ زمیں سونا اگلتی ہے ہوا میں تیل کی بو ہے ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گےتو پھر واپس نہ جاﺅ گے۔ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گے/حسن عابدیحسن عابدی کے مرنے کی خبر میرے لیے بہت اچانک تھی ۔ ایک صبح میں نے حسب معمول اپنا میل باکس کھولا تو اس خبر پر مشتمل کراچی سے آنے والی ای میل میرے سامنے آگئی تھی یوں کہ میں بہت دیر تک اسے پڑھ نہ پایا تھا ۔ اسی ای میل میں لکھا تھا کہ حسن عابدی کل تک ٹھیک ٹھاک تھے ۔ کسی تقریب میں شرکت کی اس کی رپورٹ ڈان کو بھیجی تھی ۔ میں نے جھٹ ڈان کا ویب ایڈیشن نکالا وہاں حسن عابدی کی بھیجی ہوئی رپورٹ موجود تھی ۔ مگر وہاں حسن عابدی نہیں تھا بس اس کے قلم کی مشقت تھیصحافت کی دنیا سے وابستہ رہتے ہوئے ‘ اس نے ۵۹۹۱ سے ۵۰۰۲ کے دورانئے میں اپنے آپ کو شاعری کے میدان میں یوں زندہ رکھا کہ اب وہ کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا ۔بہت پہلے اس نے کہا تھا:میں آبلہ پا دھوپ کے صحرا کا مسافر سائے کا بھی احسان اٹھا کر نہیں رکھا جو حرف لکھے دور سے روشن نظر آئے رستے میں چراغوں کو بجھا کر نہیں رکھا ٭٭٭