Friday, September 3, 2010

ن م راشد


ن م راشدکاتخلیقی قرینہ


محمد حمید شاہد

مطبوعہ بازیافت ن م راشد نمبر


ن م راشدکاتخلیقی قرینہ

(غزل سے افسانے کی طرف جست :تخریب یا اجتہاد)

اردو شاعری کا ناس مارنے والا

اپنے تخلیقی مزاج کے خال و خد پر بات کرنے میں ن م راشد کو جھجک آئی نہ کبھی حجاب آیا مگر نہ جانے وہ کیا تھاکہ ایرانی شاعری پر بات کرتے ہوئے جب نیما یوشیج کا ذکر آیا تووہ ادبدا کر اس کے تخلیقی مزاج کچھ مناسبتیں مراجی،اخترشیرانی اور فیض احمد فیض کے ہاں سے ڈھونڈ نکالنے کے جتن کرنے لگا تھا ۔ کیا یہ تو وہی بات نہ ہورہی تھی: دل میں نقصان جس کا ہوتا ہے/کام کرتا ہوں ادبدا کے وہی۔ جی ،میں یہاں راشد کی اس تحریر کی جانب اشارہ کر رہا ہوں جو اس نے فارسی کے جدید شاعروں کو اردو دنیا میں متعارف کرنے کے لیے لکھی تھی(۱)۔ اور ہاں، یہیں بتاتا چلوں کہ راشد نے اس مضمون میں نیمایوشیج کو اگر میرا جی اور دوسروں سے جوڑا تھا تو فریدوں توللی کو فارسی شاعری کا جوش ملیح آبادی بنایااور نادر نادر پور جہاں کواپنا احمد ندیم قاسمی۔ جب راشد کی یہ تحریر میری نظر سے گزری تھی تو جہاں نیمایوشیج کے ذکر پر میں نے راشد کو بہت پرجوش پایا وہیں مجھے گماں سا گزرا تھا کہ اپنے ساتھی میرا جی کا جہاں جہاں نیما کے ساتھ ذکر کررہا تھا،وہ ایسا بادل ناخواستہ کررہاتھا۔کچھ برس پہلے ایران میں قیام کے دوران تحسین فراقی کو راشد کا ایک ایساانٹرویوہاتھ لگاجسے بازیافت ۳۱ میں پڑھنے کے بعدمیں اب یقین سے کہہ سکتا تھا کہ نیما کے ساتھ میراجی کا نہیں بل کہ راشد اپنا ہی موازنہ کرنا چاہتا تھا(۲) ۔ راشد کے اس انٹرویو میں ،کہ جوتہران کے ایک ہفتہ وار مجلہ "سپید وسیاہ"شمارہ ۱۲ میں چھپا تھا اور جسے اب تحسین فراقی نے اردو میں فراہم کرتے ہوئے کچھ لائق توجہ حاشیے بھی جمائے تھے ،کئی کام کی چیزیں نکل آئی ہیں تاہم مجھے اس مصاحبے کے عنوان نے پہلی ہی نظر میں چونکادیا ہے۔ لیجئے یہ عنوان آپ کے لیے نقل کر رہاہوں" پاکستان کے نیما یوشیج کے ارشادات" ۔ ذیلی عنوان میں راشد کو تازہ کار پاکستانی شاعر لکھا گیا ہے ۔ تو یوں ہے کہ کچھ اور پڑھنے سے پہلے ہی، میں نے راشد کے جدید ایرانی شاعری والے مضمون میں جہاں جہاں میرا جی کا ذکر آیا تھا اسے راشد سے بدل لیا۔ خود راشد نے بھی آگے چل کر اپنے اس مصاحبے یہی کام کیا ہے ۔ سپیدوسیاہ کی جانب سے ن م راشد سے سوال کیا گیا تھا"کیا یہ درست ہے کہ آپ کو پاکستان کا نیمایوشیج کہتے ہیں ؟"۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ سپیدوسیاہ والوں نے یہ بات کسی اور سے کیا سنی ہوگی، خود راشد نے ہی ان کوسنائی ہوگی۔ یہ بدگمانی نہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اسے دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہوائی کہتا اور نیمایوشیج اور میراجی کے حوالے سے اپنے مضمون کے مندرجات کا دفاع کرتا ۔ اےسا نہیں ہواتھا ۔ اور حق بات یہ ہے کہ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے تھا۔ اچھا ،اس سوال کے جواب میں چھوٹتے ہی جو راشد کی زبان سے نکلا، وہ بھی میرے اسی گمان کو یقین میں ڈھال رہا ہے۔ عین مین نقل نقل کررہاں ہوں :"یہ درست ہے۔"یہیں راشد نے اپنے ۴۴۹۱ ءوالے قیام تہران کا ایک دلچسپ واقعہ بھی سنایا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایرانی دوست کے ہم راہ نیمایوشیج کے گھر کے پاس سے گزر رہا تھا ۔ راشد کے دوست نے گھر سے باہرموجود شخص کی بابت بتایا کہ وہ نیما تھا ۔ اوربہ قول راشد اس پر یہ اضافہ کیا:"ان حضرت کی چول ڈھیلی ہے اور یہ فارسی شاعری کا ناس مار رہے ہیں۔"راشد نے یہاں اپنا ردعمل بھی روایت کیا ہے ۔ بہ قول اسی کے:" ۔۔۔اس حساب سے تومیں نے بھی اردو شاعری کا ناس ماررکھا ہے۔ بنا بریں نیما اور مجھ میں مفاہمت کا امکان ہے

"

راشد کا انحراف

سوال یہ ہے کہ نیمایوشیج نے ادھرایران میں اور راشد نے ادھرپاکستان میں ،فارسی اور اردو شاعری کی روایت میں وہ کیا کاٹ پھانس کی تھی کہ دونوں کا حوالہ ایک ہی سانس میں لیا جانے لگا ہے ۔ نیمایوشیج کو نئی نظم کا پیش رو کہا جاتا ہے ۔ یہاں نظم سے مراد محض آزاد نظم نہیں ہے کہ اس کے نمونے پہلے سے فارسی شاعری کے اندر موجود تھے۔ نیما نے تو شاعری کے مزاج کو بدل ڈالا تھا اور اس ہیئتی تجربے کے ذریعہ نظم کے ڈیپ اسٹریکچر میں تہ در تہ معنیاتی سلسلے رکھ دینے کی گنجائشیں پیدا کر لی تھیں ۔ اس باب میں تحسین فراقی کی کاوشوں سے ۶۴۹۱ میں منعقد ہونے والی ایرانی ادیبوں کی پہلی کانفرنس سے نیما یوشیج کے فراہم کردہ خطاب کا یہ ٹکڑا اہم ہے :" میری آزاد شاعری میں وزن اور قافیہ ایک اور حساب سے متعین ہوتے ہیں ۔ اس میں مصرعوں کا چھوٹا برا ہونا کسی ہوس یا فنتاسی کی بنا پر نہیں ۔ میں نے نظمی کے لیے بھی کسی تنظیم پر اعتقاد رکھتا ہوں ۔ میرا ہر کلمہ ایک دقیق قاعدے کی رو سے دوسرے کلمے سے مربوط ہوتا ہے ۔۔۔ہیئت ،کلمات،وزن،قافیہ ہمیشہ میرے لیے ایسے ہتھیار رہے ہیں کہ میں انہیں بدلنے پر مجبور رہاں ہوںتاکہ یہ میرے اور دوسروں کے دکھوں کی بہترین نمائندگی کر سکیں۔ (۳)' 'اور اب راشد کے اس باب میں ارشادات کہ جس نے نہ صرف اپنے آپ کو نیمایوشیج کہلواناپسند کیا ، اس کا اہتمام بھی کیا تھا۔ اپنی منظومات کا پہلا مجموعہ"ماورا" واگزار کرتے ہوئے راشد نے لکھا تھا:"مجھے یقین ہے کہ ہمارے اکثراوضاع سخن اب بھی جدید خیالات کے سےلاب کا ساتھ نہیں دے سکتے۔اس لیے نئے راستوں کا پیدا ہونا قدرتی ہے اور نئے راستوں کا پیدا کرنا ایک مقدس فرض۔ ۔۔اردو میں آزادشاعری کی یہ تحریک محض ذہنی شعبدہ بازی نہیں ،محض جدت اور قدیم راہوں سے انحراف کی کوشش نہیں۔ اگر ان نظموں میں آپ کو کسی تخلیقی جوہر کی معمولی سی چمک،کسی قوت کا ادنی سا شائبہ ، کسی نئے احساس کی ہلکی سی جنبش نہ ملے تو انہیں رد کر دیجیے،کیوں کہ اجتہاد کا جواز صرف یہ نہیں کہ اس سے کس حد تک قدیم اصولوں کی تخریب عمل میں آئی بل کہ یہ کہ آیا تعمیری ادب اس میں کسی نئی صبح کی طرح نمودار ہوتا ہے یا نہیں۔اگر یہ نہ ہو تو اجتہاد بے کار ہے۔(۴)"یوں کہاجا سکتا ہے کہ راشدکے ہاں شاعری کی روایت سے بغاوت دراصل اس اپنا تخلیقی وفور تھا جو شاعری کے مروجہ سانچوں میں پوری طرح فٹ نہ بیٹھ رہا تھا۔ راشد کے نزدیک قوافی اور بحور کی تیکنیک کی روایت چوں کہ نسلاًبعد نسل ہم تک پہنچی تھی لہذااکثرشاعروں نے تیکنیک کی فرسودگی کو جانتے ہوئے بھی اس سے سمجھوتہ کیا ۔ صابر و شاکر رہنے کی اس روش کو راشد نے ایشیائےوں کی تقدیر پرستی اور تقلید پرستی سے جوڑنے کے بعداظہار کے نئے شعری سانچوں کی اہمیت اجاگر کی(۵) انہیں دلائل کو راشد نے اگلی کتابوں کے دیباچوں اور مختلف مضامین میں جاری رکھا(۶) تاہم جس نے اس کے نئی نظم کے اس تجربے کو قابل اعتنا بنایا وہ اس کی ان تحریروں سے کہیں زیادہ اس کی نظمیں تھیں ۔ جو اپنی جگہ مبہم ہوتے ہوئے بھی ایک الگ سا معنیاتی جہاں بنا رہی تھیں، جنسی تجربے اورتشنگی کو گرفت میں لے کر بھی اتھلی،فحش،ننگی اور لذیذ نہ ہوتی تھیں اور کہیں کہیں زندگی سے فرار کی تصویر دکھاتے ہوئے بھی زندہ انسان سے کٹتی ہیں نہ اس کے استقبال سے(۷) ۔

غزل اور راشد

راشد نے یگانہ کے حوالہ سے اپنی اےک ملاقات کا دل چسپ احوال ساقی فاروقی کو لکھا تھا جس کے مطابق جب یگانہ کا دلی آنا ہوا تو آل انڈیا ریڈیو کی ریکارڈنگ کے دوران جدید شاعری پر گفتگو کا موقع نکل آیا تھا۔ یہ وہی جدید شاعری تھی جس کے بارے میں یگانہ نے کہیں لکھ رکھا تھا کہ "جس کاغذ پر یہ جدید شاعری چھپتی ہے میں اسے اپنے ساتھ پیخانے میں بھی لے جانا گوارا نہیں کرتا،،۔ جدید شاعری پر یگانہ کسی طوربات کرنے پر راضی نہ ہورہاتھا۔ کسی نے وہیں راشد کو جدید شاعری کے علم برداروں کہہ کر اس کی شاعری سننے کی تجویز دی تو ےگانہ نے کہا " بھئی میں بوڑھا آدمی ۔ میںیہ کلام سن کر کیا کروں گا۔اور پھر راشد تو ان لوگوں میں سے ہے جنہیں اہل پنجاب نے رشوت دے رکھی ہے تاکہ اردو شاعری کو خراب کریں۔ " راشد نے اس واقعہ کو خود روایت کیا ہے لہذا آخر میں جدید شاعری کی یگانہ کے ہاں گواراہوجانے کی سبیل نکل آئی ہے ۔ راشد کے مطابق یگانہ اس سے نظمیں سننے پر آمادہ ہو گیا تھا اور اس نے جب اپنی نظم "بے کراں رات کے سناٹے میں" سنائی تو اسے یگانہ نے تین بار یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اس میں قافیہ نہیں تھا۔ پھر یہ کہتے ہوئے گلے لگالیا تھا کہ"میاں اگریہی جدیدشاعری ہے تو سبحان اللہ۔ تمہیں حق پہنچتا ہے کہ شعر کہو"(۸)راشد نے یوں یگانہ کے ہاں اپنی نظم کے لیے گنجائش نکال لی تھی مگر اپنے ہاں یگانہ کی محبوب صنف غزل کی گنجائش نہ نکال پایا تھا۔ صاحب، سب جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں راشد غزل کی شاعری کی طرف لپکا تھا ۔ غزل ہے ہی ایسی کافر صنف سخن کہ شاعر ناشاعر کو ئی بھی ہو ایک بار اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر ضرور ہوتا ہے ۔ ماننا چاہیے کہ جو اس عفیفہ کے ہم مزاج ہوتے ہیں انہیں یہ دور تک لے جاتی ہے۔تاہم دیکھا گیا ہے کہ اکثر کم سوجھوں کے حصے میں فقط بانجھ مشقت آتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ بات جو تخلیقی التباس میں مبتلا روایتی گروہ کا مسئلہ نہ بن سکی تھی راشد کا مسئلہ بن گئی ۔ راشد غزل سے وابستہ رہتا اور مسلسل اسے ہی اپنے تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنائے رکھتا تھا مجھے یقین ہے اس صنف کے اندر سے کسی حد تک کچھ اور گنجائشیں نکل آتیں تاہم خود راشد کاتجزیہ مختلف تھا اس نے جو غزلیں لکھی تھیں انہیں اس نے اپنے تخلیقی مزاج کے آئینے میں دیکھا ،آنکا اور مسترد کردیا۔ راشد کے تخلیقی مزاج نے غزل کو کیوں رد کیا اس سوال کے جواب کے لیے ساقی فاروقی اور راشد کے درمیان ہونے والا مکتوباتی مکالمہ بہت معاون ہو سکتا ہے ۔ ساقی نے اپنے ایک خط میں جدیدیت کو تین مختلف عناصر،زمانہ،زبان اور ذات کاایسا نامیاتی عمل قرار دیا تھا اور اصرار کیا تھا غزل بھی جدیدیت کو ساتھ لے کرچل سکتی تھی کہ اس کے پاس میر،فراق اور ےگانہ جیسے شاعری کی روایت راہ دکھانے کو موجود تھی۔ ساقی کے محبوب شاعر وں یگانہ اور فراق پر بات کرتے ہوئے راشد نے سوال اٹھایا تھا کہ آخر کیوں" غزل کے سب شاطر اےک ہی بساط پر اےک ہی جیسے(اور اکثر پٹے ہوئے)مہروں کے ساتھ گنی چنی چالیں ےاد کر لینے کے بعد کھیلتے چلے جاتے ہیں؟۔راشد کا اصرار تھا کہ پہلے تو کسی غزل گو کو جدید کہنا اپنی آپ تردید کرنا ہے۔ دوسرے غزل اور جدیدنظم کو ایک میزان پر تولنا ہی نامناسب ہے۔ یگانہ وفراق کی غزل جن بنیادوں پر راشد کے ہاں روایتی رہ کر کلیشے ہو جاتی ہے اس کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے:" یگانہ کے لگ بھگ سارے کلام میں گرداب ساحل اور موج ،لیلی مجنوں، محمل کارواں اورجرس، زنجیر اور دیوانہ اور چاک،پیراہن پرونہ اور آگ،چرخ ستم گاراورگردش لیل و نہار،وحشی اور فصل گل،ساقی اور مست اور خمار، نشیمن قفس اور صیاد،محفل اور شمع سحروغیرہ کی جانکاہ تکرار ہے۔ جس کی وجہ سے یگانہ صرف اپنے ہی محور پر گھومنے رہنے اوراپنے سے پہلوںکا طواف کرنے پر مجبور ہے۔یوں ایک حد تک یگانہ بیدل اور غالب سے ماخوذ نظر آتا ہے۔فراق کلیشے پرستی میں یگانہ سے بھی دوچار ہاتھ آگے ہے شاعر رنگ رنگ کی تراکیب استعمال کرتا ہے مگریہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس نے ان ترکیبوں کے استعمال میں کس حد تک سوچ سے کام لیا ہے۔ ان سب کااستعمال اس قدر ڈھیلا ڈھالا ہے کہ شاعر کا خلوص اس پر قربان ہو جاتا ہے ۔ فرسودہ اصطلاحات جن سے پرانی غزل بھری پڑی ہے فراق کو بھی مرغوب ہیں ۔تکرار کے اسی ہمہمے کا نتیجہ ہے کہ فراق کے تمام تر یا بیشتر تصورات اردو شاعری کے معینہ اضداد سے بندھ کر رہ گئے ہیں۔ فراق کی ساری شاعری کچھ تو اس کی اپنی گونج ہے اور باقی پرانوں کی نقالی ہو گئی ہے۔"(۹)اب اگر راشد یہ کہتا ہے کہ شاعری اس وقت تک جدید نہیں ہوسکتی جب تک وہ کلیشے سے آزاد نہ ہو ۔ جب تک شاعر فرسودہ اور پیش پا افتادہ افتادہ الفاظ اور تراکیب کے جال سے باہر نہ نکلے وہ جدید نہیں ہوسکتا تو اس کا غزل کے سانچے سے جست لگا کر نکلنے اور اپنی نظم کے لیے الگ تخلیقی قرینوں کی تلاش پر مصر ہونے کا جواز بھی سمجھ لیا جانا چاہیے ۔

راشدکی نظم کا قرینہ

غزل نہیں نظم ، راشد کی تخلیقی ترجیح بہ جا مگرراشد نظم کو بھی اس طرح قبول نہیں کر رہا تھا جیسا کہ وہ موجود تھی ۔ دکنی عہد سے اقبال تک اور بعد ازاں نظم کہنے کے کئی ڈھنگ متعارف ہو چکے تھے ۔ مرثیہ ہو یا قصیدہ،مخمس ہو یا مسدس،مثنوی ہو یا قطعہ الغرض نظم کہنے کے سو قرینے اور ایک تخلیقی خزانہ تھا جو یہ بتانے کو موجود تھا کہ گزرچکے تخلیق کاروں نے کیسے کیسے مضامین کو ان میں برتا اور کیوں کر برتا تھا۔ غزل نہیں نظم،لگ بھگ یہی ترجیح بہت پہلے حالی کے ہاں رہی کہ جس طرح کی مقصدی شاعری اسے عزیز تھی نظم اس کے لیے موزوں ترین تھی ۔ تب ہی سے یہ احساس چلا آرہا ہے کہ حسیات اور جذبات کی بہ جائے جب معاملہ دانش اورفکر سے ہو تو نظم بہ سہولت تخلیق کار کا ساتھ دیتی ہے۔ تو یوں ہے کہ اسی سارے زمانے میں لگ بھگ یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ غزل کے مضامین کون سے ہیں اور ناملائم الفاظ کا وہ کون سا ذخیرہ ہے جو غزل کے مزاج کو تباہ کر سکتا ہے ۔وطن پرستی کی لہر کو اسی صنف کی وجہ سے ایک تند تیز دھارے میں بدل گئی ۔حالی ،آزاد اورشبلی غرض کون نہیں تھا جو قوم کے ساتھ جڑا تھا اوراس ناطے سے نظم کے ساتھ بھی۔ غزل اپنی اےمائیت اور رمزیت کی وجہ سے مقبول اور محبوب بنی مگرنظیر اکبر آبادی نے نظم کو عام آدمی کی پکار سے جوڑ کر اسے مقبول بنالیا تھا۔اس میلان نے شاعری پر نئی عوامی لغت کا در وا کر دیا تھا۔پھر اقبال نے اپنے تخلیقی جوہر سے شاعری کا مزاج بدل کر رکھ دیا اور نظم پر نئے امکانات کادروازہ کھول دیا ۔ تاہم ان ساری تبدیلیوں کے باوجود راشد دانش،فکر اور ہیئت میں ہم آہنگی کے لیے کچھ اور وسعت طلب کر رہا تھا۔ راشد نے اس باب میں خوب خوب دلائل دےے تاہم مجھے یہاں راشد کا وہ انٹرویو یاد آرہا ہے جو سعادت سعید نے اس سے لیا اور ادب لطیف میں چھپا تھا۔ راشد کا اےک سوال کے جواب میں کہنا تھا :" آزاد نظم غزل کی طرح محض قافیہ پیمائی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی منطق غزل کے اشعار کی منطق کی طرح مربوط منطق ہے ۔ آزاد نظم میں ناول کی سی وحدت بھی دستیاب نہیں ہے۔اسے مختصر افسانے کے قریب قریب سمجھا جاسکتا ہے ےا کسی حد تک sketchesکے قریب۔ نئے قاری کی رہنمائی قدیم شاعری کی تفہیم میں بروئے کار آنے والے کلیوں سے ممکن نہیں ہے۔"(۱۱)گویا راشد کے ہاں تک آنے والی نظم باطنی سطح پر اب بھی غزل کے زیر اثر تھی اور اسے جن موضوعات کو برتنا تھا یا جس دانش اور فکر کو اپنے نئے قاری تک پہنچانا تھا وہ اس صنف کی غزل کے اثرات سے مکمل آزادی ہی سے ممکن تھا۔ اچھا اب معاملہ صرف دانش اور فکر کا نہ تھا انسانی حسیات میں بھی خوب خوب تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی تھیں، لسانی پیکر بدل رہے تھے ، باطنی اضطراب کی سطح بہت بلند اور اس کی جہتیں متنوع ہو چکی تھیں اورراشد کے سامنے مغربی شاعری کے نمونے بھی توموجود تھے۔ تو یوں ہے کہ اردو میں آزاد نظم کے تجربے کے لیے فضا پوری طرح تیار تھی ۔ راشد اس جانب لپکا تو اس نے اس تخلیقی سانچے کو اپنے تخلیقی مزاج سے ہم آہنگ پایا۔ راشد کے پہلے مجموعے"ماورا" میں " طلسم جاوداں"،"دریچے کے قریب" ،"خود کشی" اور" داشتہ " جیسی نظمیں ہو ںیا "ایران میں اجنبی " کی" سباویران" اور"شباب گریزاں" جیسی۔ تیسرے مجموعے"لا=انسان""بوئے آدم"، "اسرافیل کی موت" یا"حسن کوزہ گر" جیسی نظمیں ہوں یا چوتھے مجموعے "گماں کا ممکن" میں "حسن کوزہ گر" کے سلسلے کی باقی نظمیں اور "نیا آدمی " وغیرہ(۲۱) ، سب اس نئے تخلیقی قرینے کا جواز بن کر آئی ہیں ۔ ان نظموں کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ راشد اگر اپنی بات براہ راست نہیں کہہ پاتا تھا تو اس نے خود کو کسی کردار میں ڈھال لینے کو وتیرہ کیا ، وہی افسانے والی تیکنیک ۔ اس ساری صورت حال نے مجموعی شعری روایت کے مزاج میں بھی قابل توجہ تبدیلیوں کی راہ کھول دی ہے ۔ اب ریزہ خالی ، مخصوص الفاظ کے استعمال کی پابندی،ایک زمانے سے رواج پانے والی تراکیب اور محدود موضوعات کادائرہ شاعری کی خوبی نہیں رہے، خامی بنتے چلے جارہے ہیں ۔ ایک ہی بات کو سو ڈھنگ سے باندھنے کا چلن متروک نہیں ہوا تو معیوب ہو گیا ہ

ے ۔ نئی بات اور اپنی بات کہنے اور اپنے ڈھنگ سے کہنے کی للک عام ہے اوروہ سب کچھ جو افسانے میں کہا جاسکتا تھا یا کہا جا رہا تھا، بہ قول راشد نظم کے افسانے کے قریب آنے سے ، نئی نظم کے وسیلے سے شاعری میں بھی کہنے کی صورت نکل آئی ہے ۔ یوں دیکھیں تو راشد اردو شاعری کا ناس مارنے والاتخریب کار نہیں اس پر اجتہاد کا در واکرنے والا معماراور راہنما ہے۔

٭٭٭

حواشی

۱۔ ن م راشد،فارسی کے جدید شاعراور شاعری، شعروحکمت(ن م راشد نمبر) ،حیدر آباد ،بھارت، ص ۸۶۲ تا ۸۷۲۲۔

۳تحسین فراقی،ڈاکٹر،پاکستان کے نیمایوشیج کے ارشادات :ایک تجزیہ ،ایک محاکمہ، بازیافت۔۳۱ (جولائی تا دسمبر ۸۰۰۲)، شعبہ اردو ،پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور،ص۵۵۳ تا۲

۸۳۴،۵،۷۔ ن م راشد،مقالات، مرتبہ شیمامجید،الحمرا ،اسلام آباد،۲۰۰۲،دیباچہ "ماورا"ص ۲۹تا ۰۰۱،اور ص۷۰۱ تا ۰

۱۱،

دیباچہ "ایران میں اجنبی"ص ۱۰۱ تا ۶۰۱،اور ۱۱۱ تا ۵۱۱۸،۹،۰۱۔

ن م راشد،"حرف ناگفتہ،ایک ادھوری کتاب" مشمولہ مقالات ن م راشد، مرتبہ شیمامجید،الحمرا ،اسلام آباد،۲۰۰۲،

ص ۵۸۳تا

۳۹۳۱۱سعادت سعید،ن م راشد سے ایک مصاحبہ، مشمولہ مقالات ن م راشد، مرتبہ شیمامجید،الحمرا ،اسلام آباد،۲۰۰۲، ص ۵۸۳ تا ۳۹۳۲۱

۔

ن م راشد،"کلیات راشد "ماورا پبلشرز، لاہور۔

٭٭٭